طلباء کا کارنامہ: 800 سی سی کار کو الیکٹرک گاڑی میں تبدیل کردیا
طلباء کا کارنامہ: 800 سی سی کار کو الیکٹرک گاڑی میں تبدیل کردیا
پیٹرول کے بڑھتے ہوئے اخراجات زیادہ تر صارفین کے لیے ایک بڑا درد سر ہیں، لیکن طالب علموں کے ایک باصلاحیت گروپ نے اس مسئلے کا حل نکال لیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صرف 300،000 روپے میں آپ کی گیس یا پیٹرول پر چلنے والی کار کو الیکٹرک کار میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
یہ کارنامہ عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے طلباء کی ذہانت کی بدولت انجام پایا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کے بیچلر آف الیکٹریکل (میجر ان الیکٹرانکس) طلباء نے ایک عام 800 سی سی کار کو الیکٹرک گاڑی میں تبدیل کر دیا ہے۔ جسے پاکستان کے آٹوموٹو سیکٹر میں ایک انقلابی ترقی قرار دیا جارہا ہے۔
مزید پڑھئے: اساتذہ کے لیے خوشخبری، پنجاب حکومت 4 ہزار نئے ہیڈ ٹیچرز بھرتی کرے گی
غلام محمد لوہار، احمد ظہیر حسین، محمد حسنین رضوی، مبشر حسین شیرازی، محمد عطا مصطفی، شہیر عارف اور سمیر باسط شاہ نے اپنے سپروائزر ڈاکٹر عابد کریم کی زیر نگرانی الیکٹرک کاروں کے لیے بیٹری پیک اور موٹر سسٹم تیار کیا ہے۔
سوزوکی مہران کار، جو ملک کے بیشتر افراد میں بے حد مقبول ہے، اس سسٹم کو جانچنے کے لیے منتخب کی گئی تھی۔
چھوٹی ہیچ بیک کو امریکہ میں مقیم پاکستانی سید آصف حسن کی مالی مدد سے کامیابی سے تبدیل اور تیار کیا گیا ہے۔
الیکٹرک کار تیار کرنے والی ٹیم کے ایک رکن غلام محمد لوہار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اس کامیابی کے بعد کسی بھی چھوٹی گاڑی کو الیکٹرک کار میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھئے: درسی کتابوں سے قابل اعتراض مواد حذف کرنے کی ضرورت ہے
غلام محمد لوہار نے مزید کہا کہ طالب علموں کے تیار کردہ نظام کے بارے میں منفرد بات یہ ہے کہ ڈرائیور اب بھی اپنے انجن کو پیٹرول یا بجلی پر چلانے کا انتخاب کرسکتا ہے اگر وہ چاہے۔
غلام محمد لوہار کا کہنا ہے کہ عام طور پر الیکٹرک کاریں پیٹرول پر نہیں چلتی ہیں اور اس سے ان کی طویل فاصلے تک سفر کرنے کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے، جیسے شہروں کے درمیان سفر بڑھ جاتا ہے۔
دوسری طرف عام آدمی کے لیے مرکزی دھارے کی کاروں کی صنعت سے نئی الیکٹرک کار خریدنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔
غلام محمد لوہار نے واضح کیا کہ عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے عام کاروں کو الیکٹرک کار میں تبدیل کرنے کا طریقہ تیار کیا ہے اور ضرورت پڑنے پر انہیں پیٹرول پر بھی چلایا جاسکتا ہے۔
الیکٹرک کار اور اس کی بیٹریوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس ایجاد کا سب سے اہم حصہ بیٹری پیک ہے جو درآمد شدہ لیتھیم آئرن فاسفیٹ سیلز سے تیار کیا گیا ہے۔ اوسط فاصلے اور مسافروں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے، 7 کلو واٹ بیٹری پیک تیار کیا گیا ہے، جس کی گنجائش کو ضرورت کے مطابق گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس بیٹری کی کم از کم زندگی چار سے پانچ سال ہے اور یہ چار ہزار بار اپنا چارجنگ سائیکل مکمل کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیٹری کو تبدیل کرنے کی لاگت بیٹری کی کُل لاگت سے بھی آدھی ہے۔
غلام محمد بتاتے ہیں کہ بیٹری کو مکمل چارج ہونے میں چار سے پانچ گھنٹے لگتے ہیں اور وہ بھی صرف سات یونٹ بجلی استعمال کرکے، اس طرح بجلی کا خرچ بھی کم ہے۔
اوسط ٹیرف کے ساتھ بیٹری 100 روپے چارج کرے گی اور 80 کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کرے گی۔
گاڑی کی زیادہ سے زیادہ رفتار 50 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جو مسافروں کی تعداد اور گاڑی کے وزن پر منحصر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عام کاریں جنہیں مقامی افراد بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں، اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے الیکٹرک گاڑیوں میں بھی تبدیل کی جاسکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکٹرک سسٹم خصوصی سینسرز سے لیس ہے جو بیٹری سے 60 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر بجلی کی فراہمی کو روکتا ہے تاکہ اسے زیادہ گرم ہونے سے روکا جا سکے اور اس وجہ سے سلامتی کے خطرات سے محفوظ رہا جا سکے۔
کار کا ایک پروٹو ٹائپ یو آئی ٹی میں دستیاب ہے اور کسی بھی شہری کے لیے اس کا معائنہ یا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ منصوبہ چھ ماہ کی مدت میں مکمل کیا گیا ہے۔
یو آئی ٹی کی ٹیم کو یقین ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان میں الیکٹرک کاروں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا اور موجودہ کاریں آسانی سے الیکٹرک کار میں تبدیل ہو جائیں گی۔
ان نوجوان تخلیق کاروں کا خیال ہے کہ اس منصوبے کو کاروباری بنانے کے لیے کار مینوفیکچررز یا نئے سرمایہ کاروں کے ساتھ شراکت داری کے امکانات موجود ہیں۔ الیکٹرک کار میں مزید جدید فیچرز شامل کرنے کے منصوبے جاری ہیں۔
(یہ خبر ایکسپریس ٹریبیون کی 12 ستمبر 2021 کی اشاعت سے اخذ کی گئی ہے)