ملک بھر میں سرکاری یونیورسٹیز مالی بحران کے باعدث تباہی کے دہانے پر

ملک بھر میں سرکاری یونیورسٹیز مالی بحران کے باعدث تباہی کے دہانے پر

ملک بھر میں سرکاری یونیورسٹیز مالی بحران کے باعدث تباہی کے دہانے پر

اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی فنڈنگ ​​میں گذشتہ 10 سال میں صرف 8 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے

پاکستان کی پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کو بجٹ میں خاطر خواہ فنڈز مختص کرنے میں حکومتوں کی ناکامی اور اعلیٰ تعلیم کو لازمی خدمت کے بجائے عیاشی کی طرح سمجھنے کے ان کے نقطہ نظر کی وجہ سے لگاتار مالی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

گذشتہ 10 سال کے دوران ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے مختص ترقیاتی بجٹ، اس شعبے کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق نہیں رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: شام میں آدھے سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں

اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی فنڈنگ ​​میں گذشتہ 10 سال میں صرف 8 ارب روپے کا اضافہ ہوا جو سرکاری شعبے کی 116 یونیورسٹیز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی تھا۔

پلاننگ کمیشن کے مطابق مالی سال 2009،10 میں اس وقت کی وفاقی حکومت نے ایچ ای سی کے لیے 21.5 ارب روپے مختص کیے تھے جو مالی سال 2020،21 میں بڑھ کر29.5 ارب روپے ہوچکے ہیں۔

ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اصل بجٹ کا اجرا عموماً پسِ پشت ہی رہتا ہے اور یونیورسٹیوں کو فنڈ جاری کرنے میں ہمیشہ تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔

وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار کے مطابق رواں مالی سال کے لیے ایچ ای سی کے 29 اعشاریہ 5 ارب روپے مختص کرنے کے مقابلے میں، وزارت خزانہ نے پہلی ششماہی کے دوران 11.5 بلین روپے کا ترقیاتی بجٹ جاری کیا۔ جاری کردہ رقم سالانہ مختص کردہ رقم کی صرف 34 فیصد تھی۔ تاہم وزارت منصوبہ بندی و ترقی نے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے لیے مختص کردہ رقم کے 14 ارب یا صرف 47 فیصد کی منظوری دی ہے۔

لیکن ایچ ای سی کے لیے موجودہ سالانہ بجٹ میں 64 ارب روپے مختص کرنے کے بجائے35.3 ارب ریلیز کئے گئے جو کہ مختص کردہ بجٹ کا 55 فیصد تھا۔

اعلیٰ تعلیم کے لیے بجٹ کا حجم کم مختص کرنے کے ساتھ رقم کی آہستہ آہستہ ریلیز نے سرکاری شعبے کی یونیورسٹیوں میں مالی صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔ پچھلے 10 سال میں ایچ ای سی کا ترقیاتی بجٹ کُل وفاقی ترقیاتی منصوبے کے 5 فیصد سے بھی کم رہا ہے۔

مزید پڑھیں: سوسائٹی فار انٹرنیشنل ایجوکیشن کا سسٹر 2 سسٹر ایکسچینج پروگرام برائے 2021 کا اعلان

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب پشاور یونیورسٹی کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نیز یہ خدشات بھی بڑھ رہے ہیں کہ پبلک سیکٹر کی دیگر بڑی یونیورسٹیاں جلد ہی اسی طرح کی بدقسمتی کا سامنا کر سکتی ہیں۔

ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری نے کہا کہ ہمیں کسی اور جگہ سے بھی ایسی صورتحال کی واضح رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے لیکن کووِڈ نائنٹین سے متعلق معاملات اور فنڈز کی رکاوٹوں کی وجہ سے متعدد یونیورسٹیز دباؤ کا شکار ہیں۔

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے 200 یونیورسٹیاں سرگرم ہیں اور ان میں سے 116 پبلک سیکٹر میں قائم ہیں جہاں 1.6 ملین طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ ہم گذشتہ ایک سال سے کے پی کی متعدد یونیورسٹیز کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ پشاور یونیورسٹی کو پہلے ہی ہم سے مالی مدد مل چکی ہے۔

تیمور سلیم جھگڑا نے کہا کہ یونیورسٹیز میں ایک طویل مدتی بجٹ کا مسئلہ ہے (اور) یہ بنیادی طور پر ضرورت سے زیادہ اسٹاف، کمزور مالی نظم و نسق اور دیگر وجوہات کی بنا پر چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیگر ذمے دار اور خود مختار اداروں کی طرح یونیورسٹیوں کو بھی دستیاب مالی وسائل کے اندر انتظام کرنا ہوگا اور ہم ان تمام یونیورسٹیز کی حمایت کریں گے جو ایسا کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔

مزید پڑھیں: پنجاب حکومت تاریخ میں پہلی بار خواندگی کی پالیسی کا اعلان کرے گی

ایچ ای سی کے سابق چیئرمین پروفیسر عطا الرحمان نے کہا کہ پلاننگ کمیشن نے ویژن 2030 کے تحت سرکاری و نجی شعبے کی یونیورسٹیز کو فنڈز دینے کے لیے ایک تفصیلی منصوبہ مرتب کیا تھا لیکن یکے بعد دیگرے اس منصوبے سے حکومتیں منحرف ہوتی گئیں۔

پروفیسر عطاالرحمان نے کہا کہ محدود نشستوں کی وجہ سے کالجوں سے فارغ التحصیل 10 میں سے صرف ایک طالب علم ہی جامعات میں داخلہ لے سکتا ہے۔

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو