سی ایس ایس کارنر کی جانب سے مقامی نوجوانوں کے لیے مفت کورسز پیش
سی ایس ایس کارنر کی جانب سے مقامی نوجوانوں کے لیے مفت کورسز پیش
اس پروگرام کے ذریعے پچھلے ایک سال میں سول سروس کے 14 کامیاب افسران پیدا کیے گئے۔
اس امتحان کی مشہور پیچیدگی کے باوجود، صوبائی دارالحکومت میں نوجوانوں نے سول سروسز میں شامل ہونے میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
کراچی کے نوجوانوں میں سی ایس ایس سے بڑے پیمانے پر دلچسپی کا کچھ حصہ سی ایس ایس آفیسر طلحہ سلیم کو جاتا ہے جنہوں نے گزشتہ سال کراچی میں سی ایس ایس کارنر کے نام سے سی ایس ایس امتحانات کی تیاری کے دو مراکز قائم کیے تھے۔
یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ 1970 کی دہائی میں پبلک سیکٹر میں کوٹہ سسٹم کے نفاذ نے شہری نوجوانوں کی سینٹرل سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) میں شمولیت کے خواہشمندوں کی حوصلہ شکنی کی تھی۔
مزید پڑپڑھئے: احساس اسکالرشپ کے لیے درخواستیں طلب کر لی گئیں
کوٹہ سسٹم کے تحت دیہی کوٹہ 60 فیصد اور شہری کوٹہ 40 فیصد کردیا گیا جس کے بعد کراچی اور حیدرآباد کے شہریوں نے مایوسی کے ساتھ میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں کا رخ کرنا شروع کردیا تھا۔
اس کی وجہ سے صوبے کے شہری مراکز میں سی ایس ایس کے خواہشمندوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی، جب کہ وہ لوگ جو اب بھی امتحانات میں شرکت کا خواب دیکھتے تھے وہ تیاری کے لیے پرائیویٹ اکیڈمیوں کی جانب سے وصول کی جانے والی بھاری فیس کے متحمل نہیں ہوسکے۔ اس دشواری سے نمٹنے کے لیے، طلحہ سلیم نے کراچی شہر میں سی ایس ایس کارنر کی بنیاد رکھی جو دو اکیڈمیوں پر مشتمل ہے اور فریئر ہال لائبریری اور فیڈرل بی ایریا میں اسلامک سینٹر کے اندر واقع ہیں۔
یہ ادارے گزشتہ ایک سال سے سی ایس ایس کے خواہشمندوں کو چار ماہ کے تربیتی کورسز مفت فراہم کر رہے ہیں اور اب تک 14 سے زائد کامیاب امیدوار تیار کرچکے ہیں۔
کامیاب ہونے والے طلباء کو توقع ہے کہ وہ اگلے ماہ لاہور میں تربیت حاصل کریں گے جس کے بعد وہ سی ایس ایس افسران کی حیثیت سے مختلف وفاقی محکموں میں شمولیت اختیار کریں گے۔
مزید پڑھئے: کے پی حکومت کا رحمت اللعالمین اسکالرشپ کا اعلان
اپنے پروگرام کے بارے میں بات کرتے ہوئے طلحہ سلیم، جو اس وقت ڈپٹی کمشنر سینٹرل کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، نے کہا کہ وہ پہلے ڈائریکٹر جنرل پارکس کراچی تعینات تھے۔ ڈی جی پارکس کا دفتر فریئر ہال کے اندر واقع ہے، جہاں انہوں نے لائبریری سے منسلک کئی بڑے کمرے دیکھے جو کہ خالی پڑے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ماضی میں سی ایس ایس کے طلباء کو پرائیویٹ طور پر پڑھایا کرتے تھے، اس لیے اس خالی جگہ کو ایک ایسی اکیڈمی قائم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے جہاں طلباء مفت میں سیکھ سکیں، نجی اکیڈمیوں میں 70,000 روپے سے زیادہ کی ادائیگی کے برعکس، جسے زیادہ تر لوگ افورڈ نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے یہ خیال اپنے دوستوں کے ایک گروپ کے ساتھ شیئر کیا، جنہوں نے مجھ پر اپنا اعتماد ظاہر کیا اور مکمل کارپوریشن کی ضمانت دی۔
بعد میں یہ منصوبہ اس وقت کے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر افتخار شلوانی کو پیش کیا گیا جنہوں نے بخوشی فریئر ہال لائبریری میں اکیڈمی قائم کرنے کی اجازت دے دی۔
اس وقت، دونوں مراکز میں 180 طلباء کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، جبکہ 142 طلباء نے اس وقت اندراج کیا ہے اور اپنے سی ایس ایس کے متحانات کی تیاری کر رہے ہیں۔
ان طلبہ کی اکثریت خصوصاً خواتین کا تعلق کم، متوسط اور مخلوط آمدنی والے محلوں جیسے فیڈرل بی ایریا، لانڈھی، کورنگی، عزیز آباد، نیو کراچی، نارتھ کراچی، بلدیہ ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد، گارڈن اور لیاری سے ہے۔
پبلک اکیڈمی ہفتے میں چھ دن دوپہر 3 بجے سے رات 9 بجے تک کلاسز کا انعقاد کرتی ہے، اس کے علاوہ سی ایس ایس کارنر کے چینل پر یوٹیوب جیسی ویڈیو ہوسٹنگ سروسز پر لیکچرز اور وسائل کو بھی باقاعدگی سے اپ لوڈ اور اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔
سی ایس ایس کارنر کے تمام کورسز تقریباً 100 اساتذہ کے رضاکارانہ عملے کے ذریعے پڑھائے جاتے ہیں، جن میں موجودہ اور سابق سی ایس ایس افسران اور مضامین کے ماہرین شامل ہیں۔
معروف سفارت کار ظفر ہلالی، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے سابق ایڈمنسٹریٹر اور کمشنر کراچی افتخار شلوانی اور سینئر بیوروکریٹ طارق مصطفی بھی ادارے کے معزز لیکچررز میں شامل ہیں۔
طلحہ سلیم نے یقین دلایا کہ اس کے علاوہ، ہم نے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے ساتھ ایک ایم او یو پر بھی دستخط کیے ہیں تاکہ شہر میں اس طرح کے مزید مراکز قائم کیے جا سکیں جبکہ دونوں اکیڈمیز میں داخلہ لینے والے طلباء بھی ادارے پر بھروسہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک طالب علم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہیں لگتا کہ یہاں مفت تعلیم دی جارہی ہے۔ اساتذہ بڑے خلوص کے ساتھ پڑھاتے ہیں، جو نوجوان امیدواروں کے لیے کافی حوصلہ افزا بات ہے۔
اسی طرح فریئر ہال لائبریری کے مرکز کی ایک اور طالبہ غزل بھٹو نے کہا کہ اساتذہ کی کمٹمنٹ اس حقیقت سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ طلبہ کی تعداد کم ہونے کے باوجود اپنی کلاسیں لیتے رہتے ہیں۔
غزل بھٹو نے کہا کہ وہ جدوجہد کرنے والے طلباء پر انفرادی توجہ بھی دیتے ہیں۔ دوسری طرف پرائیویٹ اکیڈمیاں ہزاروں روپے چارج کرتی ہیں، اس کے مقابلے میں یہ مرکز شہر کے نوجوانوں کے لیے ایک تحفے سے کم نہیں ہے۔
وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق چیئرپرسن ڈاکٹر توصیف احمد خان نے شہر میں سی ایس ایس کےمتحانات کی مفت تیاری کے لیے اکیڈمیز کی فراہمی کے لیے طلحہ سلیم کی کوششوں کو سراہا۔
اس سے قبل 1970کی دہائی میں متعارف کرائے گئے کوٹہ سسٹم نے شہر کا چہرہ بدل کر رکھ دیا تھا اور شہریوں کی بڑی تعداد نے سی ایس ایس کے امتحانات دینا بند کر دیے تھے۔
انہوں نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سی ایس ایس کارنر
کارنر یقینی طور پر کراچی کے نوجوانوں کو فائدہ دے گا۔
(یہ خبر ایکسپریس ٹریبیون کی 27 اکتوبر 2021 کی اشاعت سے اخذ کی گئی ہے)