کے پی میں نئے ڈریس کوڈ کے نفاذ پر طلباء کا عدم اطمینان کا اظہار

کے پی میں نئے ڈریس کوڈ کے نفاذ پر طلباء کا عدم اطمینان کا اظہار

کے پی میں نئے ڈریس کوڈ کے نفاذ پر طلباء کا عدم اطمینان کا اظہار

صوبائی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صوبے میں نیا ڈریس کوڈ نافذ کرنے کے حکومتی فیصلے سے خیبر پختونخوا میں یونیورسٹیز کے امیر اور غریب طلباء کے درمیان فرق ختم ہوگیا ہے۔

دوسری جانب اخلاقی پولیسنگ کے ایک عمل کے طور پر اس کا حوالہ دیتے ہوئے، یونیورسٹی کے بہت سے طلباء اس اقدام کی مخالفت کرنے پر مجبور ہیں ، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کے خیالات کو اہمیت دیئے بغیر اس نئے ڈریس کوڈ کو صوبے بھر میں یکطرفہ طور پر نافذ کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیئے: این سی او سی کا ملک بھر میں بورڈ کے امتحانات کے انعقاد کا فیصلہ

پشاور میں مقیم ایک انڈرگریجویٹ طالبہ یسریٰ خان نے سوال کیا کہ یہ شرمناک اور سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیوں کی پولیسنگ کیوں کر رہی ہے؟

انہوں نے اس امر پر مزید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی اس فیصلے کو کس طرح نافذ کرے گی جو طلباء کی خواہشات کے بالکل منافی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ثقافت پر عمل پیرا ہیں۔ ہم بچے نہیں، ہم سمجھدار طالب علم ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ ہماری سوچ کو محدود کرکے ہمیں ایک ایسے تاریک دور میں لے جانا چاہتی ہے جہاں خواتین کو بغیر عبایا کے گھروں سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

مزید پڑھیئے: بلوچستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ملتوی

چند ماہ قبل، گورنر خیبرپختونخوا نے یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کی حیثیت سے  صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں کو اس نئے ڈریس کوڈ پر عمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

سرکاری احکامات جاری ہونے کے فوراً بعد ہی، ہزارہ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف پشاور ، اسلامیہ کالج، زرعی یونیورسٹی پشاور اور کے پی کی دیگر یونویرسٹیز نے طلباء کو قدامت پسندانہ روش کی پابندی کرنے کی ہدایت کی، جو خواتین کو جینز پہننے سے منع کرتے ہوئے عبایا پہننے کی تلقین کرتی ہے۔ نئے ڈریس کوڈ کے مطابق خواتین کے لیے تعلیمی اداروں میں  ٹی شرٹس پہننا، بھاری میک اپ کرنا اور زیورات پہننا، یا تعلیمی اداروں میں بھاری بیگ لے کر جانا بھی ممنوع ہوگا۔ اسی طرح مرد طالب علموں کو بتایا گیا تھا کہ وہ ٹائٹ جینز، کلائی کی چین نہیں پہن سکتے اور نہ لمبے بال رکھ سکتے ہیں۔

 

مزاحمت

ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے زرعی یونیورسٹی کی طالبہ رومیسہ طارق نے کہا کہ حکومت طلباء کی پولیسنگ کرنا اور اس ناروا فیصلے پر عملدرآمد کرنا چاہتی ہے، لیکن طلباء کبھی بھی ایسے فیصلوں پر عمل نہیں کریں گے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ "یونیورسٹیاں ابھی بند ہیں لیکن جب وہ دوبارہ کھلیں گی تو ہم مزاحمت کریں گے" رومیسہ طارق نے مزید کہا کہ ایسے فیصلوں پر کے پی کے سوا ملک میں کہیں بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔

مزید پڑھیئے: پنجاب نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کی تاریخوں کا اعلان کردیا

انہوں نے خبردار کیا کہ پہلے ہی کووڈ کے وبائی مرض نے طلبا کے لیے اپنی تعلیم جاری رکھنا مشکل بنا دیا ہے اور اگر اس طرح کے فیصلے پر عمل درآمد ہوتا ہے تو بہت سی طالبات یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گی۔

اگرچہ زیادہ تر طلباء اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کا ارادہ رکھتے ہیں مگر حکومت کو کچھ اسٹوڈنٹس کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے ، اسلامیہ کالج کے طالب علم طاہر اللہ نے کہا کہ "آکسفورڈ یونیورسٹی جیسے مشہور مقامات پر ڈریس کوڈ ان کے طلباء کی شناخت اور پہچان ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ کے پی کی یونیورسٹیز کو نہ صرف ڈریس کوڈ پر بلکہ طلباء کو درپیش مسائل اور اپنے مالی معاملات پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ہر سال، داخلہ فیس اور اس سے متعلق دیگر معاوضوں میں اضافہ کیا جاتا ہے جس کے باعث بہت سے طلباء اب اعلیٰ تعلیم کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔

دوسری جانب ماہر تعلیم ڈاکٹر خادم حسین نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ، یونیورسٹیوں میں ڈریس کوڈ کا نفاذ طلباء کی خواہشات کے منافی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے دور کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

ڈاکٹر خادم حسین نے دعویٰ کیا کہ حکومت صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں ناکام رہی ہے۔

انہوں نے اسلامیہ کالج میں طالبات کو ہراساں کیے جانے کے معاملات کو بھی اجاگر کیا اور یہ نوٹ کیا کہ ملزم فیکلٹی ممبرز کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے صوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم پہلے ہی ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جو لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی دینے اور انہیں اپنی پڑھائی مکمل کرنے سے روکتا ہے۔ اب یہ نیا ڈریس کوڈ نافذ کرنے سے اعلیٰ تعلیم کے ماحول کے بارے میں منفی خیالات کو تقویت ملے گی۔

وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اعلیٰ تعلیم، کامران بنگش نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امیر اور غریب کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لیے ڈریس کوڈ پر عمل کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم طلباء کی پولیسنگ نہیں کررہے بلکہ انہیں صحیح سمت دے رہے ہیں کیونکہ اس فیصلے سے نہ صرف طلباء کو فائدہ ہوگا بلکہ اس سے والدین کو بھی مدد ملے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈریس کوڈ پر عمل پیرا ہونے سے طلباء بہترین لباس کا مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کرسکیں گے۔

(یہ خبر ایکسپریس ٹریبیون کی 19 مئی 2021 کی اشاعت سے اخذ کی گئی ہے)

 

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو