اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ملازمین کو صرف بنیادی تنخواہ دینے کا فیصلہ

اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ملازمین کو صرف بنیادی تنخواہ دینے کا فیصلہ

اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ملازمین کو صرف بنیادی تنخواہ دینے کا فیصلہ

صوبے کے قدیم ترین تعلیمی انسٹیٹیوٹ اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں معاشی بحران شدت اختیار کرگیا ہے کیونکہ انتظامیہ نے اپنے ملازمین کو صرف بنیادی تنخواہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ وہ دوسرے الاؤنسز سے بھی محروم ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پنشنرز کو بھی پنشن کا صرف 50 فیصد ادا کیا جائے گا۔

اس فیصلے کے بارے میں رجسٹرار آفس نے ملازمین کو مطلع کیا تھا، جس پر ملازمین کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی تھی۔

مزید پڑھیئے: حکومت نے برٹش کونسل کو 26 جولائی سے ’ او لیول کے خصوصی امتحانات‘ منعقد کرنے کی اجازت دے دی

صوبائی حکومت کی جانب سے واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث یونیورسٹی آف پشاور، اسلامیہ کالج یونیورسٹی، ایگریکلچر اینڈ یونیورسٹی آف انجینئرنگ سمیت

سرکاری شعبے کی تقریباً سبھی یونیورسٹیوں کو نہ ختم ہونے والے معاشی بحران کا سامنا ہے۔

کالج کے ایک عہدیدار نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے کچھ عرصے میں، غیر ضروری کلرک اسٹاف کے ساتھ پروفیسروں کو بغیر کسی ضرورت کے بھاری تنخواہوں پر رکھا گیا تھا جس سے یونیورسٹی کا مالی بوجھ کئی گنا بڑھ گیا۔

ماضی میں ہر پروفیسر کو اسکیل بیسز پر ملازمت پر رکھا جاتا تھا اور اسے حکومت کی طرف سے منظور شدہ تنخواہ ادا کی جاتی تھی لہٰذا تمام پروفیسرز کو ان کی سینیارٹی کی بنیاد پر یکساں طور پر تنخواہ لینا پڑتی تھی۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں کے ایکٹ سے یہ چیز تبدیل ہوگئی کیونکہ یونیورسٹیوں کو حکومت کی طرف سے منظور شدہ تنخواہ کے دوگنا یا تین گنا پر ملازم رکھنے کی اجازت دی گئی اور یہ صرف ایک مسئلہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں بڑی زرعی اراضی اور تجارتی پلازے موجود ہیں لیکن یہ زیادہ تر وکلاء اور میڈیا والے کرائے پر لیتے ہیں جو برائے نام یا کوئی کرایہ ادا نہیں کر رہے تھے اور جب ان سے مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرایہ ادا کرنے کو کہا جاتا ہے تو وہ عدالت جانے کی دھمکی دیتے ہیں۔

حکومت نے ان یونیورسٹیوں کو چلانے کے لیے فنڈز کی فراہمی کے بارے میں سوچے بغیر ماضی میں بھی بہت ساری یونیورسٹیاں قائم کیں، بغیر کسی حکمت عملی کے بنائی گئی ان یونیورسٹیز کے نتائج اب ہمارے سامنے عیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طلباء نجی شعبے کے برابر فیس ادا کر رہے ہیں مگر سہولیات کے فقدان کا سامنا کررہے ہیں۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا چیپٹر پہلے ہی (آج) صوبائی اسمبلی کے سامنے اپنے احتجاج کا اعلان کر چکا ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ احتجاج اس کے چھ نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری تک جاری رہے گا۔

مزید پڑھیئے: اقلیتی طلبا کے لیے کے پی میں 2 فیصد داخلہ کوٹہ مقرر

فپواسا کے صدر ڈاکٹر شاہ عالم نے ہفتے کے روز پشاور یونیورسٹی میں منعقدہ احتجاجی مظاہرے کے دوران احتجاج کے شیڈول کا اعلان کیا۔ پیر کو چار یونیورسٹیوں کے ملازم انجینئرنگ چوک سے اسمبلی تک مارچ کریں گے۔

یو او پی کے ذریعے ملازمین کی تنخواہوں سے الاؤنسز میں کٹوتی کے بعد فپواسا نے اپنا احتجاج شروع کیا تھا۔

مزید پڑھیئے: سندھ اسمبلی، میٹرک تک ناظرہ قرآن کی تعلیم کے بل کی منظوری کیلیے نوٹس جاری

پشاور یونیورسٹی کیمپس میں اس کا احتجاج پہلے ہی تیسرے دن میں داخل ہوچکا ہے ، فپواسا کے ایک عہدیدار نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی حکومت سرکاری شعبے کی یونیورسٹیوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔

(یہ خبر ایکسپریس ٹریبیون کی 31 مئی 2021 کی اشاعت سے اخذ کی گئی ہے)

متعلقہ بلاگس

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو