مشکل اوقات میں آئوٹ ڈور ٹیچنگ حصولِ علم کے لیے تجسس بیدار کرسکتی ہے
مشکل اوقات میں آئوٹ ڈور ٹیچنگ حصولِ علم کے لیے تجسس بیدار کرسکتی ہے
پانچ سال پہلے جب میں کراچی میں موسم گرما کے دوران انڈرگریڈ طلباء سے بھری کلاس میں کھڑی تھی اور انہیں صحافت کی تعلیم کے بارے میں پڑھنے لکھنے کا احساس دلانے کی پوری کوشش کر رہا تھا تو میں نے فوری طور محسوس کیا کہ میرے طالب علموں کو باہر جانے کی ضرورت ہے۔ میں اصل میں ان کے ذہنوں کو ان ڈور کلاس روم کی لگی بندھی ترتیب سے آزاد کرنا چاہتا تھا جو شاید ان کے خیالات کی ترسیل اور ان کے اظہار خیال میں رکاوٹ کا باعث بن رہی تھا۔ اس خیال پر عمل کرتے ہوئے میں نے لڑکیوں کو راہداری میں کھڑے ہونے اور بالکونی کے باہر وہ جو کچھ بھی دیکھتی ہیں اس کے بارے میں لکھنے کو کہا۔
یہ کچھ عمارتوں اور مکانات کے ساتھ ایک سمندری نظارہ تھا اور خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ انہوں نے خوبصورت وضاحتوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنے الفاظ میں اس منظر کی خاکہ نگاری کی۔ جب میں نے ان سب کی تحاریر کو باری باری پڑھا تو ہر تحریر ایک دوسرے سے مختلف تھی کیونکہ یہ ان اسٹوڈنٹس کے اپنے نقطہ نظر اور مشاہدے پر مبنی تھی۔
کچھ اسٹوڈنٹس نے مختلف رنگوں کے پرندوں کو اُڑتے ہوئے دیکھا، دوسروں نے ہلکی دھوپ کے نیچے فٹ پاتھوں پر بیٹھے بھکاریوں کو دیکھا اور انہیں اپنی تحریر کا حصہ بنایا جبکہ کچھ اسٹوڈنٹس نے آسمان اور سمندری رنگ کے بارے میں لکھا۔
اس وقت چیلنج یہ تھا کہ موسم گرم تھا اور کلاس روم میں بیٹھنا ناقابل برداشت ہورہا تھا، ایک استاد کی حیثیت سے میں نے اپنے طالب علموں کو اپنی تحاریر کا ماخذ بیرونی دنیا سے ڈھونڈنے کی آزادی دی اور انہیں کھل کر سانس لینے دیا جس کے نتیجے میں مجھے اپنے اسٹوڈنٹس کی جانب سے رنگا رنگ تحریروں کا ایک گلدستہ ملا۔
مگر یہ 2015 تھا یعنی آج سے پانچ سال پہلے کا ایک دن اور آج یعنی 2020 میں اساتذہ کو درپیش چیلنجز اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں جن کا سامنا ہمیں اس وقت ہُوا تھا۔
لیکن آج کے اس منظرنامے میں کورونا وائرس کے ساتھ جو خطرات اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے بہت سارے ماہرین صحت کا خیال ہے کہ اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں معطل کرنے کے برعکس بیرونی تعلیم کو فروغ دینا ایک زیادہ محفوظ اور دلچسپ طریقہ ہے۔
متبادل طریقہ تدریس کے طور پر باہر جانے کی اجازت دیں:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اساتذہ کو اپنے طلباء کے ساتھ نئے طریقوں کی آزمائش اور نئی چیزوں کا تجربہ کرنے میں کیا مدد ملتی ہے؟
تعلیمی ماہرین کا مشورہ ہے کہ درس و تدریس کے لیے قابلِ قبول متبادل فراہم کیے جائیں، خاص طور پر ایسے عالم میں جب کورونا کے وبائی مرض نے تعلیم کی دنیا کو یکسر الٹا کے رکھ دیا ہے۔ اسکولوں کے اساتذہ اور سربراہان کو بیرونی تعلیم کی نوعیت اور اس کے فوائد کے بارے میں تحقیق اور اس پر نظر ثانی کرکے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آؤٹ ڈور لرننگ پورے سلیبس کے لیے کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے کسی قسم کی فینسی جگہوں یا پارکوں یا سرسبز جنگلات تک جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
باہر کی دنیا میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ دلچسپ ہوتا ہے:
کورونا کے دوران یا جب کورونا نہ ہو تو بھی بیرونی تعلیم کو متعارف کرانے کا ایک اور پہلو طالب علموں کی کلاس میں دلچسپی ہے۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے اساتذہ میں سے ایک نے اپنے آؤٹ ڈور تدریسی تجربے کو شیئر کرتے ہوئے بتایا۔۔۔
مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک بچہ زیادہ دلچسپی اور لگن کے ساتھ اسکول آرہا ہے جب اسے پتہ چلتا ہے کہ ان کے رائٹنگ ٹیچر انہیں باہر کی دنیا سے کچھ نیا دکھائیں گے اور اس کے بارے میں لکھنے کو کہیں گے۔ اس طرح ہر روز باہر کی دنیا میں کچھ نیا دیکھنا ان کے لیے ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کا باعث بنتا ہے اور ان کی لگن اور دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے۔
فطرت کو محور بنا کر سیکھنا:
فرنٹیئرز اِن سائیکولوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق فطرت پر مبنی ہدایات، روایتی اور لگی بندھی ہدایات کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں سکھاتی ہیں۔
اس تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فطرت کے ارد گرد بیرونی تعلیم کس طرح توجہ کے درجات کو بہتر بناتی ہے، فطرت کو محور بنا کر دی جانے والی تعلیم، ذہنی تناؤ پر قابو پانے، نظم و ضبط کو برقرار رکھنے، سیکھنے کے عمل سے لطف اندوز ہونے، جسمانی مہارت اور طلبا کی فٹنس کو متوازن کرتی ہے۔ ان کا ذہن کلاس روم کی روزانہ کی لگی بندھی روٹین سے آزاد ہوتا ہے اور وہ ہر روز کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے ہیں۔
دوسری جانب ہمیں آج ماحولیاتی آلودگی، معاشرتی اور معاشی بحرانوں سمیت کئی طرح کے بڑے عالمی مسائل درپیش ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ عوامل اس بات کے نتائج ہیں کہ انسانوں نے زمین کے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے۔ یعنی آج ہمیں عالمی سطح پر جو اتنے بڑے مسائل درپیش ہیں اصل میں ان کا ذمے دار خود انسان ہی ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ اساتذہ فطرت اور اس کی قدر کو اپنے اسٹوڈنٹس کے ذہنوں کے قریب کرکے اس نقصان کا ازالہ کر سکتے ہیں۔