کیا ڈگری ہنر سے زیادہ اہم ہے؟
کیا ڈگری ہنر سے زیادہ اہم ہے؟
آج کل نوجوانوں میں یہ ایک عام سوال ہے کہ کیا ہنرمند ہونا ایک ڈگری یافتہ فرد ہونے سے بہتر ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عالمی وبائی مرض کورونا وائرس نے ہر ایک کو اپنی صلاحیتوں کا ازسر نو جائزہ لینے اور نئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے خود کو تیار کرنے میں مدد دی ہے۔
یہ سوال ہر ایک کے ذہن میں پھوٹ پڑا ہے کہ کیا وہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے ڈیجیٹل طور پر کام کرنے والی موثر ملازمتیں انجام دینے کے لیے ضروری مطالبے کو پورا کرسکتے ہیں۔
دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے درمیان بیشتر محنت کش طبقے کے لوگوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج اینالاگ سے ڈیجیٹل طرز کے کام کو اپنانا تھا۔
ڈگری والا ہنر یا مہارت والی ڈگری؟
اگر دیکھا جائے تو یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو مختلف رُخ ہیں۔
زندگی کی اس دوڑ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی فرد کے پاس کسی خاص شعبے میں مہارت کی ڈگری ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی مہارت نہ ہو تو ڈگری بغیر پانی کے گلاس کی طرح خالی ہوگی۔ مہارت اور ڈگری کا مجموعہ ایک بہترین زندگی گزارنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔
کسی بھی یونیورسٹی سے ملنے والی کسی خاص شعبے میں تعلیم یافتہ ہونے کی سند رکھنے والی ڈگری ماہرین تعلیم کی طرف سے جاری کردہ محض ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، جبکہ ہر ہنر مند فرد ڈگری حاصل نہیں کرسکتا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سارے کاموں میں کچھ لوگ بہت ماہر ہوتے ہیں مگر ان کے پاس کسی یونیورسٹی کی جانب سے اس خاص شعبے میں مہارت کی کوئی ڈگری نہیں ہوتی۔ اسی طرح کوئی بھی ڈگری ہولڈر ہمیشہ عملی طور پر ماہر نہیں ہوتا ہے۔
آئیے تاریخ پر ایک نظر ڈالیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آجروں نے انٹرویو کی ضرورت کے مطابق بیچلرز یا اس سے زیادہ اعلیٰ درجے کی ڈگریاں مرتب کی ہیں لیکن دنیا میں نمایاں طور پر تبدیلی آئی ہے۔
سب سے زیادہ تعلیمی ڈگریاں رکھنے والے افراد بے روزگار ہیں اور کم تعلیم یافتہ افراد جن کے پاس کسی نوعیت کا ہنر یا مہارت ہے تو وہ اس کمی کو پورا کررہے ہیں۔
ڈگری روزگار کا ایک گیٹ وے ہے۔
تیسری دنیا کا ملک ہونے کے ناتے پاکستان میں تکنیکی ترقی کے بارے میں ماہرین فقط تعلیم پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملازمت کے لیے درکار مہارت کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ ڈگری آپ کے لیے اپنی قوم میں وقار اور سماجی اعتبار کمانے کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ تاہم یہ اعتبار ڈگری کی سطح کے ساتھ مختلف ہوتا ہے جتنی بڑی ڈگری اتنی زیادہ تنخواہ اور پوسٹ بھی اچھی ملتی ہے۔ یہ ایک مستند سند ہے جو کسی فرد کو کام کا ماحول سیکھنے اور اپنے شعبے میں کام کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے۔
پاکستان میں ابھی بھی ڈگری کو پیشہ ورانہ قابلیت کی ایک مہر سمجھا جاتا ہے۔
پنجاب کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم راجہ یاسر ہمایوں سرفراز نے بھی اس امر پر زور دیا ہے کہ یونیورسٹیوں کو بہتر فارغ التحصیل افراد کی پیشہ ورانہ تربیت کی ضرورت ہے۔ افسوسناک امر ہے کہ اگر ہم کسی فارغ التحصیل فرد سے کسی بھی عنوان پر ایک صفحے لکھنے کو کہتے ہیں تو یقین کریں وہ ایسا بھی نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ یونیورسٹیوں میں کیا تعلیم دی جارہی ہے اور کیا واقعی تعلیم دی جارہی ہے۔
ایک نجی تحقیق کے مطابق، پاکستان میں 78 فیصد آجروں نے حالیہ گریجویٹس کی اہلیت کے معیار سے متعلق ایک معاہدہ ظاہر کیا ہے کیونکہ وہ بازار میں ملازمتوں کے لیے بڑی حد تک اناڑی اور مخصوص عہدوں پر کام کرنے کے لیے نااہل ہیں۔
مہارت کی تربیت ترقی کا راستہ ہے۔
ڈیٹا اینالیٹکس، مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ اور روبوٹکس جیسے ٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی تبدیلی کے ساتھ ، دنیا اس نوکری کے لیے کسی ماہر فرد کا مطالبہ کرتی ہے۔
روایتی انداز میں سیکھنے والوں کے لیے انڈسٹری میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے اور یہ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ روش جلد ہی پرانی ہوجائے گی۔
بلاشبہ سافٹ اسکلز جیسے مواصلات یا کمیونیکیشن کے میدان میں مہارت، قیادت، تخلیقی اور تنقیدی سوچ ہمیشہ آجروں سے اہل اور ماہر ملازمین کے تقرر کا مطالبہ کرے گی۔
تاہم اہلیت، قابلیت اور صلاحیت رکھنے والے افراد کے لیے پروگرامنگ، ڈیجیٹل ہنر(ایس ای او، مارکیٹنگ و اشتہارات) کے میدان میں بڑے پیمانے پر مانگ ہے۔ سیلف گورننگ، موٹیویشن اور تخلیقی سوچ کی آج کے اس جدید دور میں بہت ضرورت ہے اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ اگر آپ ان شعبہ جات میں مہارت اور تعلیم حاصل کرتے ہیں تو آپ کا مستقبل بہت روشن ہوسکتا ہے۔
جیسا کہ ہم موٹیویشن کے بارے میں بات کرتے ہیں، اپنے مقصد یا ہدف پر نظر رکھنے والے افراد کا ہر جگہ خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی سے وابستہ کمپنیوں میں انٹرویو کے لیے باضابطہ اور روایتی تعلیم کی اب کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس وقت دنیا کی نام ور ٹیکنالوجی کمپنیوں جیسے گوگل، آئی بی ایم یا ایپل جیسے اعلیٰ درجے کے اداروں میں ملازمت کے لیے باضابطہ یا روایتی تعلیمی نظام کو اب پسِ پشت رکھ دیا گیا ہے، یہاں روایتی ڈگری رکھنے والے افراد کی نسبت ایسے لوگوں کو نوکری کے لیے پسند کیا جاتا ہے جو ٹیکنالوجی کے مخصوص شعبہ جات میں مہارت رکھتے ہوں۔
اگر آپ کو کام کرنے کی ضرورت ہو تو یہ خاصا آسان ہے۔ آپ کو نوکری حاصل کرنے اور اچھی تنخواہ لینے کے لیے اپنے ہاتھ میں کوئی ہنر پیدا کرنا ہوگا۔
آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈپلومے اور ڈگریاں صرف انہی شعبوں میں آپ کو کام دلانے میں مدد دیں گی جہاں اب بھی روایتی ڈگری یافتہ افراد کو ہی تعلیم یافتہ اور قابل سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سے آپ کی صلاحیت اور ہُنرمندی میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔
پاکستان میں ماقبل تعلیم کے لیے انٹرنشپ کی ضرورت کیوں ہے؟
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے حالیہ برسوں میں ڈگری کے لیے ایک ڈیمانڈ طے کررکھی ہے۔ جیسے مثال کے طور پر پاکستان میں، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ (سی اے) کے لیے بیچلرز ڈگری کا ہونا اور اکاؤنٹنگ فرم میں کم سے کم تین سال کی انٹرنشپ ناگزیر ہے۔
ٹیکنیکل فرمز اور دیگر کمپنیاں بھی فریشر کو اپنی خداداد صلاحیتوں اور تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کررہی ہیں۔ حوصلہ افزائی کے طور پر ٹرینی کو ایک مقررہ رقم یا وظیفہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔
اور مزید کیا؟
لہٰذا اب ہمارے سامنے یہ سوال ہے کہ کیا ہم اگلے بڑے چیلنج کی تیاری کر رہے ہیں؟ جن کمپنیوں کو مطلوبہ صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے ان سے غیر رسمی تعلیم کی طلب میں تیزی سے اضافے کے ساتھ ، شک نہیں کہ تعلیم میں ایک ہنگامہ خیز تبدیلی پرانے اور روایتی طرز کے نظام تعلیم کے اختتام کی منتظر ہے۔
مہارتوں کو سیکھنے اور ان کی نشوونما کے لیے کیمپس گرو کے پاس پاکستان میں متعدد انسٹی ٹیوٹس کی فہرست ہے جو تکنیکی مہارت کی تعلیم دیتے ہیں۔
آپ کیمپس گرو کی ویب سائٹ پر جا کر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹس پر کلک کرکے ہمارے پیج کو دیکھ سکتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا سفر بھی شروع کرسکتے ہیں۔