انٹرمیڈیٹ کے پیپر لیک میں واٹس ایپ گروپس ملوث

انٹرمیڈیٹ کے پیپر لیک میں واٹس ایپ گروپس ملوث

انٹرمیڈیٹ کے پیپر لیک میں واٹس ایپ گروپس ملوث

کراچی بورڈ آف انٹرمیڈیٹ نے ایف آئی اے سے ثبوت کے ساتھ رجوع کرلیا ہے، اور معاملے سے نمٹنے کے لیے ایجنسی سے مدد طلب کی ہے۔

بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی نے ایک انتہائی منظم گروہ کے خلاف ٹھوس شواہد حاصل کیے ہیں جو مبینہ طور پر امیدواروں کو انٹرمیڈیٹ کے امتحانی پرچے لیک کرنے میں ملوث ہے۔

وہ گروپ جو کہ واٹس ایپ کے ذریعے کام کرتا ہے، نہ صرف امتحانی پرچے حاصل کرنے کے لیے کافی متحرک ہے، بلکہ انہیں امتحانی ہالز میں بیٹھے نقل کے خواہشمند طلباء میں تقسیم بھی کر سکتا ہے۔

مزید پرھئے: بلوچستان کے 100 طلبا کے لیے آئی ٹی انٹرن شپس کا اعلان

ثبوت حاصل کرنے کے بعد کراچی بورڈ نے معاملے کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ( ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ سے رابطہ کیا ہے۔

مذکورہ گروپ اور اس کی سرگرمیاں ملیر کے گورنمنٹ جامعہ ملیہ کالج میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے پہلے دن منظر عام پر آئیں ، جب نگرانی کرنے والے عملے نے 15 سے زائد طلباء کے موبائل فون ضبط کر لیے جو کہ پرچے حل کرنے کے لیے غیر مناسب طریقوں کا سہارا لے رہے تھے۔

 ضبط شدہ 15 فونز میں سے 12 کو اسی واٹس ایپ گروپ سے منسلک کیا گیا تھا جس میں بورڈ کے جاری کردہ انٹر کامرس اکاؤنٹنگ پیپر کا حل شدہ ورژن موجود تھا۔

جامعہ ملیہ کی انتظامیہ کے مطابق 12 طلباء جن کا تعلق گورنمنٹ سپیریئر کالج (ایوننگ) سے ہے، نے امتحانی پرچہ دوپہر 1.47 بجے ہی وصول کرلیا تھا، جیسا کہ ان کے فون پر واٹس ایپ ٹائم اسٹیمپ دکھایا گیا تھا۔

مزید پڑھئے: ماہی گیروں کے بچوں کے لیے پہلا بوٹ اسکول قائم

جامعہ ملیہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل پروفیسر ذکاء اللہ نے بتایا کہ یہ امتحانی مرکز میں پیپر آنے کے چند منٹ بعد ہی ہوا تھا اور ہم نے گروپ ایڈمنز کی تعداد سمیت تمام ضروری معلومات اور شواہد کراچی بورڈ کو بھیج دیے ہیں۔

اس معاملے پر بات کرتے ہوئے بی آئی ای کے کے چیئرمین پروفیسر سعید الدین نے تصدیق کی ہے کہ ان کے ڈیپارٹمنٹ نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم کو اس کیس کے بارے میں مطلع کیا ہے اور انہیں مطلع کیا ہے کہ اس طرح کے مزید گروپس واٹس ایپ پر بھی سرگرم ہو سکتے ہیں۔

 ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایف آئی اے سے درخواست کی ہے کہ وہ ایسے گروہوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں کیونکہ وہ نہ صرف طلباء کو تعلیم حاصل کرنے کی مخلصانہ کوششوں سے دور کر رہے ہیں بلکہ بورڈ میں شامل کالجوں کا نام بھی بدنام کر رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیوشن سینٹر کے اساتذہ، نجی و سرکاری کالجوں کے عملے اور متعلقہ سرکاری اداروں کے ملازمین کو واٹس ایپ گروپ بنانے میں ملوث کیا گیا ہے جو امتحانی پرچے لیک کرنے اور پھیلانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

اسکول سیکریٹری کے اختیارات سکول کی سطح تک محدود ہیں جبکہ کالج سیکریٹری کے اختیارات کالجز تک محدود ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹیوں اور بورڈز کے سیکریٹری اور صوبے کے تمام تعلیمی بورڈ یونیورسٹیوں اور بورڈز کے محکمے کے ماتحت ہیں۔

دوسری جانب سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی جو کالجز، تعلیم اور امتحانی مراکز کے ذمہ دار ہیں، اس وقت ملک سے باہر ہیں جبکہ سندھ کے مشیر برائے وزیراعلیٰ مشیر نثار کھوڑو جو کہ تمام تعلیمی بورڈز کے نگران ہیں وہ بھی اس سیزن میں کسی بھی امتحانی مراکز کے دورے اور معائنہ سے دور ہی رہے ہیں۔

مزید پڑھئے: بلوچستان کے 100 طلبا کے لیے آئی ٹی انٹرن شپس کا اعلان

سندھ بھر میں نقل، چیٹنگ اور امتحان میں غیرمنصفانہ ہتھکنڈٖے استعمال کرنا ایک عام جرم ہونے کے باوجود ابھی تک کسی سینٹر سپرنٹنڈنٹ یا بورڈ کے عہدیدار نے اس معاملے کو نہیں دیکھا اور نہ ہی منصفانہ امتحانات کے نفاذ کے لیے کوئی قدم اٹھایا ہے۔

اس معاملے پر بات چیت کرتے ہوئے  انٹر بورڈ کمیٹی آف چیئرمین ڈاکٹر غلام علی ملاح نے کہا کہ چیٹنگ اور پیپرز لیک ہونے کی اس طرح کی شکایات میں اضافہ ہورہا ہے اور انہوں نے اس بارے میں تعلیمی بورڈز سے مشاورت کی ہے۔

انہوں نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کووڈ کی مشکلات کے باوجود طلباء کے لیے غیرمناسب طریقوں کا سہارا لینا اب بھی ناقابل قبول ہے اور آئی بی سی سی جلد ہی اس  کے تدارک کے لیے ایک طریقہ کار کی سفارش کرے گی۔

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو