عظیم ملاپ: کراچی یونیورسٹی میں مشتری اور زحل کے دوبارہ اتحاد کا مشاہدہ
عظیم ملاپ: کراچی یونیورسٹی میں مشتری اور زحل کے دوبارہ اتحاد کا مشاہدہ
کراچی یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے مشتری اور زحل کے سیکڑوں برس بعد ہونے والے دوبارہ اتحاد کا مشاہدہ کیا، جب شمالی نصف کرہ پر شام کے بعد آسمان پر ایک حیرت انگیز نظارہ دکھائی دیا، جب نظام شمسی کے دو سب سے بڑے سیارے زحل اور مشتری آپس میں ملتے نظر آئے۔ اس خوبصورت اور انوکھے نظارے کو ماہرین فلکیات نے "عظیم اجتماع" کہا ہے۔
مزید پڑھیں: یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس کے امتحانات دوبارہ لینے پر غور
آئی ایس ایس ٹی کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال نے بتایا کہ یہ حیرت انگیز نظارہ اس لحاظ سے بھی منفرد تھا کہ اس عمل میں نظام شمسی کے دونوں بڑے سیارے لگ بھگ 400 سال بعد آسمان میں قریب ترین دکھائی دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ نظام شمسی کے دو سیاروں کا ایک جوڑا ہر20 سال میں ایک بار اس طرح سامنے آتا ہے۔ لیکن پیر کے روز مشتری اور زحل آسمان پر ایک دوسرے کے اتنے قریب آ گئے جیسے آج سے سیکڑوں برس قبل 1623 میں ہوا تھا، تاہم اس وقت یہ نظارہ دن کی روشنی میں وقوع پذیر ہوا تھا اور اسی وجہ سے زمین کے بیشتر مقامات سے نظر نہیں آسکا تھا۔
ڈاکٹر اقبال نے کہا کہ مشتری اور زحل ہمارے نظام شمسی کے دو انتہائی بڑے سیارے ہیں۔ مشتری، جو زمین کے سائز سے گیارہ گنا بڑا ہے، سب سے بڑا سیارہ ہے جب کہ زحل زمین کے سائز سے 9.4 گنا زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سورج سے مشتری کا فاصلہ 763 ملین کلو میٹرز ہے جبکہ سورج سے زحل کا فاصلہ تقریبا 1427 ملین کلومیٹر ہے، اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مشتری ایک چکر کو تقریباً 11.8 سال میں مکمل کرتا ہے جبکہ زحل 29.5 سال میں اپنا ایک سائیکل مکمل کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: پنجاب کے پبلک سیکٹر کالجوں میں پرنسپل کے عہدے پر تعیناتیوں کا اعلان
ڈاکٹر اقبال نے وضاحت کی کہ جب آسمان میں یہ دونوں سیارے ایک ہی وقت میں ایک دوسرے کے قریب پہنچتے ہیں اور ایک ہی سمت میں نظر آتے ہیں تو سائنس کی زبان میں ہم اسے ایک جوڑا کہتے ہیں۔
آخری بار دکھائی دینے والا ان دونوں سیاروں کا عظیم امتزاج دوربین کی ایجاد سے بہت پہلے 1226 میں، پیرس میں واقع نوٹرے ڈیم گرجا کی تعمیر کے دوران، ہوا تھا۔
ڈاکٹر اقبال نے مزید کہا کہ فلکیات کا مطالعہ کرنے والوں اور طلبہ کے لیے جامعہ کراچی میں اس غیر معمولی اور عظیم الشان اجتماع کا مشاہدہ کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے، جبکہ کووڈ نائنٹین کے تمام ایس او پیز کی سختی سے پیروی کی گئی تھی۔
دوسری جانب ہارورڈ اسمتھسونین سینٹر برائے ایسٹرو فزکس کے ماہر فلکیات جوناتھن میکڈویل نے برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کو ایک ای میل میں لکھا کہ اس عظیم اجتماع کو دیکھنے کے حوالے سے بڑی دوربینیں زیادہ مدد نہیں کرتیں، ایک عام اور معمولی دوربین بہترین ہے اور یہاں تک کہ اپنی آنکھوں سے براہ راست مشاہدہ کرنا بھی ٹھیک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں سیاروں کا اگلا عظیم امتزاج نومبر 2040 سے پہلے ممکن نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: ایچ ای سی کا برطانیہ میں پی ایچ ڈی کے لیے کامن ویلتھ اسکالرشپ کا اعلان
میک ڈویل نے بتایا کہ پیر کے روز کی طرح ان دونوں سیاروں کا اس انداز میں سیدھ میں آنا مارچ 80 20میں ممکن ہوگا، لیکن جس طرح پیر کے روز مشتری اور زحل کا عظیم الشان ملاپ مشاہدے میں آیا ایسا اب دوبارہ اگست 2417 میں 337 سال بعد دکھائی دے گا۔