ترقی پذیر ممالک میں انگریزی کی تعلیم تاحال ایک مشکل کام

ترقی پذیر ممالک میں انگریزی کی تعلیم تاحال ایک مشکل کام

ترقی پذیر ممالک میں انگریزی کی تعلیم تاحال ایک مشکل کام

پینل ان پریشانیوں کی عکاسی کرتا ہے جن کا اساتذہ کو کسی دوسری زبان کی تعلیم کے دوران سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کا حل بھی پیش کرتا ہے

 

بین الاقوامی زبانوں کی فہرست میں انگریزی نے ہمیشہ ایک اہم ترین تعلیمی اور پیشہ ورانہ ٹول کے طور پر اپنے مقام کو برقرار رکھا ہے۔ تاہم زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مسابقت کے لیے انگریزی کو تدریس کے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کرنا ایک پریشانی کن کام ہے۔ ے۔

پاکستان کے سیاق و سباق میں زبان میں کم سے کم تبدیلی کے ساتھ  سوسائٹی آف پاکستان انگلش لینگویج ٹیچرز نے اپنی 37 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے ممبرز اور انگریزی زبان کے اساتذہ کی توجہ کو وسائل تک پہنچانے کے لیے ایک پینل پر مباحثے کا اہتمام کیا جس سے وہ اپنی ملازمت کے دوران روزانہ پیش آنے والے چیلنجوں سے نمٹ سکتے ہیں۔

مزید پڑھئے: حکومت نے اسکولوں میں قرآن پاک کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیا

پینل ڈسکشن دو کتابوں کے موضوعات پر مبنی تھی یعنی ریسرچ آن ٹیچنگ اینڈ لرننگ انگلش انڈر ریسورسڈ کونٹیکسٹس اور انٹرنیشنل پرسپیکٹو آن ٹیچنگ انگلش ان ڈیفیکلٹ سرکمسٹانسز، جس میں دنیا کے مختلف ممالک سے ماہرینِ تعلیم شامل تھے۔

  انٹرنیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن فار انگلش لینگویج ایجوکیشن کی نمائندگی کرنے والی پروفیسر ڈاکٹر کیتھی بیلی نے کہا کہ یہ بات مجھے انٹرنیشنل بُک کلب کی طرح محسوس ہوتی ہے، انہوں نے کتابوں کا جائزہ لیتے ہوئے اور ان امور پر روشنی ڈالی کہ وہ ذاتی طور پر ایسا محسوس کرتی ہیں جیسے زمانہ طالب میں لوٹ آئی ہوں۔

پینل نے بتایا کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں انگریزی پڑھانے کے دوران پیش آنے والے عام چیلنجز میں بچوں کے حد سے بھرے کلاس رومز، ٹیکنالوجی کا فقدان اور طلبا کے لیے ایک نئی زبان سیکھنے کے محرکات کی کمی شامل ہیں۔

ترکی سے تعلق رکھنے والے ایک پینلسٹ ڈاکٹر اوزگور سہان نے اسکولوں پر علاقائی تنازعات اور مہاجرین کے اثرات کی طرف توجہ مبذول کروائی اور بتایا کہ ان کے اپنے ملک میں بھی اساتذہ کو مختلف ثقافتی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھئے: بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن راولپنڈی کا میٹرک کے امتحانات کی ڈیٹ شیٹ کا اعلان

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے وطن کے سیاق و سباق کے حوالے سے بات کرتے ہیں کیونکہ ہم نے مہاجرین کے لیے دروازے کھول دیئے ہیں، بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ جدوجہد کی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ آیا قومی زبان کو مختلف صوبوں میں بنیادی تعلیم کے طریقہ کار کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔

ڈاکٹر سہان نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ اسکولوں کے اساتذہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی کھینچاتانی افراد کی صلاحیتوں پر منفی اثر ڈالتی ہے کیوں کہ ایسی صورت میں اساتذہ نئے آئیڈیا کو کامیابی کے ساتھ نافذ نہیں کرسکتے، اس سے ان کے لیے فرض کی ادائیگی مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اکثر مسئلے کے حل کے معاملے میں عالمی سوچ کی خواہش کرتے ہیں لیکن ان کے زیر اثر اسکولوں میں جو طریقہ کار رائج ہوتا ہے وہ لوکل یعنی مقامی ہوتا ہے جس کے تحت وہ کام کرتے ہیں۔

مزید پڑھئے: میٹرک کے نتائج کا اعلان اگست میں کیا جائے گا، شہرام ترکئی

انگریزی زبان کے اساتذہ کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ طلباء کی حوصلہ افزائی کو بڑھانے، ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے اور ٹیکنالوجی کی کمی پر قابو پانے کے لیے مختلف گیمز یا ویژولز کو استعمال کریں۔

کراچی کی ضیاءالدین یونیورسٹی سے پینل میں شامل ڈاکٹر فوزیہ شمیم ​​نے مشورہ دیا کہ انگریزی زبان کے اساتذہ کو مسائل کے حل کے لیے ایسے طریقوں کی اجازت دی جانی چاہئے جو وہ مناسب سمجھتے ہیں۔ اس سے اساتذہ کو خود طلبا کے لیے فائدہ مند سمجھیں گے اور اساتذہ میں خود مختاری کے جذبات پیدا کرنے میں مدد ملے گی جس سے مقامی چیلنجز پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو