سندھ میں بچوں کی جسمانی سزائوں سے متعلق قانون میں پیشرفت

سندھ میں بچوں کی جسمانی سزائوں سے متعلق قانون میں پیشرفت

سندھ میں بچوں کی جسمانی سزائوں سے متعلق قانون میں پیشرفت

پانچ سال کی تاخیر کے بعد سندھ کے ایجوکیشن اینڈ لٹرییسی ڈیپارٹمنٹ نے پیر کے روز جسمانی سزا کے قانون (کارپورل پنشمنٹ ایکٹ 2016 ) کے نفاذ کے بارے میں مطلع کیا ہے۔

سول سوسائٹی کی طویل کوششوں کے بعد صوبائی اسمبلی سے منظور ہونے والی اس قانون سازی کا اطلاق، حکومت سندھ کی جانب سے قواعد وضع کرنے میں ناکامی کی وجہ سے نہیں ہوسکا تھا۔

اسکول کے بچوں کو درپیش جسمانی سزائوں کے وسیع پیمانے پر خطرے کو روکنے کے مقصد کے ساتھ منظور کردہ یہ قانون محض کاغذ پر موجود تھا اور اس بارے میں سندھ حکومت کسی قسم کے قواعد وضع نہیں کرسکی تھی۔ جس کے باعث اسکولوں، مدرسوں یا دیگر تعلیمی اداروں میں اس طرح کے واقعات کو کنٹرول کرنے کے لیے اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھئے: دو سالہ ڈگری: ایچ ای سی نے طلبا کو غلط معلومات کے حوالے سے خبردار کردیا

اس قانون میں بچوں کو ہر طرح کی بد سلوکی سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ سندھ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے نئے تیار کردہ قواعد کے مطابق ہر تعلیمی ادارہ اپنے طلبہ کے جسمانی تحفظ اور عزت نفس کی حفاظت کو یقینی بنانے اور جسمانی سزائوں سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے کا پابند ہے، جس میں چھڑی سے مارنا، کوڑے مارنا یا کسی بھی نوعیت کی بدزبانی یا ہتک شامل ہے۔

اس قانون کے مطابق، کسی بھی فرد کو جو کسی بھی بچے کو شدید چوٹ پہنچاتا ہے یا کسی قسم کی جسمانی سزا دیتا ہے، اسے سزا دی جائے گی اور اس کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 334 اور 336 کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔

قوانین کے مطابق ہر انسٹی ٹیوٹ میں ایک یا ایک سے زیادہ بچوں کے تحفظ کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جو انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ، والدین یا انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لینے والے بچے کے سرپرست اور سماجی بہبود یا مقامی حکومت کے ڈیپارٹمنٹس کے نمائندوں پر مشتمل ہوں گی۔

انہوں نے مزید واضح کیا کہ یہ کمیٹیاں ان الزامات یا شبہات سے متعلق تمام شکایات، شبہات یا ریکارڈ کی تفتیش کریں گی کہ کسی بچے کو جسمانی سزا یا بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

قواعد میں کہا گیا ہے کہ قانون کے تحت تعلیمی ادارے میں بنائی گئی کمیٹی بھی بچے کو مطلوبہ جذباتی، جسمانی اور طبی مدد فراہم کرے گی۔

مزید پڑھئے: سندھ میں انٹر کے امتحانات، فزکس کا پیپر لیک

اس پر عملدرآمد کے قواعد کی تشکیل کی تعریف کرتے ہوئے، نیشنل کمیشن آن رائٹس آف چلڈرن سندھ کے رک، اقبال ڈیتھو نے کہا کہ جسمانی سزا کے واقعات بچوں کو اسکول چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں جبکہ سندھ ملک میں بچوں کے اسکول چھوڑنے کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔

اقبال ڈیتھو، جنہوں نے محکمہ تعلیم سندھ کے ساتھ ساتھ ان قوانین کے مسودے کو تیار کرنے میں مدد کی، انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کے تحفظ کے لیے قائم کمیٹیوں کو بغیر کسی تاخیر کے تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ شکایات کے ازالے کے لیے سرکاری اہلکاروں کی صلاحیت کو بڑھایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ان قواعد کے ذریعے قانون کو نافذ کرنے کا طریقہ کار تیار کیا گیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ یہ کمیٹیاں ادارہ جاتی سطح پر کام کریں گی، چلڈرن پروٹیکشن اتھارٹی قانون کے تحت ہمارے پاس پہلے ہی ضلعی سطح کی کمیٹیاں موجود ہیں۔

قواعد میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ جسمانی سزا کے معاملات سے نمٹنے کے لیے یہ کمیٹیاں جسمانی سزاؤں سے نمٹنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز اور دیگر محکموں جیسے لیبر، تعلیم، سماجی بہبود، بچوں کے تحفظ کے افسران، پولیس اور دیگر متعلقہ افراد کے فون نمبرز بھی اپنے پاس رکھیں گی۔

مزید پڑھئے: پی ایس اے نے اسکول بند کرنے کا حکومتی فیصلہ مسترد کردیا

اس کے ساتھ ساتھ ان قواعد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے ہر انکوائری خفیہ رہیں گی اور عمل کی سالمیت کو برقرار رکھیں گی۔

ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے محکمہ تعلیم کے ترجمان نے بتایا کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد یہ قواعد تیار کیے گئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے محکمہ قانون، بچوں کے حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے دیگر ارکان کی مدد سے قواعد کو حتمی شکل دی ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ پہلی ترجیح تعلیمی اداروں کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دینا ہوگی اور تمام ضلعی افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں اس کو یقینی بنائیں۔

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو