اگلے ہفتے سے اسکول کھل جائیں گے
اگلے ہفتے سے اسکول کھل جائیں گے
وزارت تعلیم نے یکم ستمبر سے پنجاب بھر کے سرکاری اسکولوں میں پرائمری، مڈل، ہائی اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کے اساتذہ کے لیے عقلی تنظیم کا نطام تشکیل دینے کا پروگرام شروع کیا ہے۔
یہ اقدام صوبے کے 53،000 اسکولوں میں 15 اگست 2021 کو آن لائن طلباء کے ڈیٹا کی وجہ سے کیا جائے گا۔
مزید پڑھیئے: سری لنکن طلباء کی پاکستان میں اسکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم کی راہ ہموار
اس عمل کے لیے وضع کردہ قواعد کے مطابق، سب سے سینئر اساتذہ کو ان کے موجودہ اسکول سے 20 کلومیٹر کے اندر واقع دوسرے اسکولوں میں منتقل کیا جائے گا تاہم تکنیکی عملے، ڈرائنگ اور عربی کے اساتذہ کو اس عمل میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
جن اسکولوں میں طلباء کی تعداد 25 سے کم ہے وہاں کے اساتذہ کو تبدیل کر دیا جائے گا جبکہ انہیں بدلے میں کوئی آپشن نہیں دیا جائے گا۔
تمام اساتذہ یونینز نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ ٹیچرز یونین کے بعض رہنماؤں نے جن میں محمد شفیق بھلوالیہ، بشارت اقبال راجہ اور اخیان طاہر گل شامل ہیں، نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی، ملتان اور بہاولپور بینچ میں چیلنج کریں گے۔
مزید پڑھیئے: ایچ ای سی انڈر گریجویٹ اسٹڈیز کے داخلہ ٹیسٹ منعقد کرے گا
ان کا موقف تھا کہ ہائی کورٹ پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے کہ حکومت اساتذہ کی تنظیموں سے مشاورت کے بغیر اس قسم کا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ یکم ستمبر سے یہ عمل شروع کرنے کا اعلان یکطرفہ ہے اور عدالتی احکامات کی بھی خلاف ورزی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے اساتذہ 15 کلومیٹر کے فاصلے تک واقع اسکولوں میں ٹرانسفر کیے جاتے تھے، جسے اب بڑھا کر 20 کلومیٹر کر دیا گیا ہے جبکہ سینئر اساتذہ کے لیے روزانہ دو بار 20 کلومیٹر کا سفر کرنا بہت مشکل ہوگا۔
یونین کے رہنماؤں نے کہا کہ خواتین سینئر اساتذہ کو صبح ساڑھے 6 بجے گھر چھوڑنا پڑے گا اور وہ شام 5 بجے کے بعد ہی گھر لوٹ سکیں گے۔
مزید پڑھیئے: وزیراعظم نے یکساں قومی نصاب کا افتتاح کردیا
انہوں نے سوال کیا کہ اساتذہ سرپلس کیسے ہو گئے کیونکہ تمام اساتذہ سرکاری پالیسی کے تحت اور درخواستوں کے پورے عمل کے بعد ہی بھرتی کیے جاتے ہیں۔ حکومت کو اساتذہ کو ادھر ادھر کرنے کے بجائے کلاس رومز کی کمی کو دور کرنا چاہیے اور سرکاری اسکولوں میں کمپیوٹر سائنس لیب کو جدید بنانا چاہیے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ تعلیمی حکام اپنے نظام اور نصاب کو اپ گریڈ کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے سرکاری اسکولوں میں داخل ہوں۔
اساتذہ یونین کے نمائندوں نے یہ بھی استدعا کی کہ حکومت تعلیم کے شعبے میں اس طرح کے فرسودہ تجربے نہ کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ یکساں نصاب کے لیے کوششیں قابل تحسین ہیں۔ اگلا مرحلہ یہ ہونا چاہیے کہ اب تمام سرکاری ملازمین سے کہا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کرائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اساتذہ کی ریشنلائزیشن کے خلاف ایجوکیشن آفیسرز کے دفاتر کے سامنے بھرپور احتجاج، ہڑتالیں اور مظاہرے کریں گے اور دھرنا دیں گے۔
اساتذہ رہنمائوں نے واضح کیا کہ دور دراز کے علاقوں میں واقع اسکولوں میں 25 سال سے پڑھانے والے سینئر اساتذہ کا تبادلہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
(یہ خبر ایکسپریس ٹریبیون کی 17 اگست 2021 کی اشاعت سے اخذ کی گئی ہے)