لڑکیوں کو پڑھنے اور آگے بڑھنے کا موقع دیں، وزیراعلیٰ سندھ
لڑکیوں کو پڑھنے اور آگے بڑھنے کا موقع دیں، وزیراعلیٰ سندھ
کورونا کی جان لیوا وبا نے زندگی کے بیشتر پہلوؤں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور تعلیم کو بھی اس سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ ان اوقات میں بچوں کو اسکول میں داخل کرانا کافی مشکل ہے جبکہ پوسٹ پرائمری سینٹرز میں لڑکیوں کے اندراج کو بڑھانے کا بظاہر ناقابل تسخیر کام بھی لگتا ہے کہ خدا کے سہارے ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔
ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم کے قابل قبول معیار تک رسائی حاصل نہ کرنے والے طلباء کی اکثریت میں لڑکیاں شامل ہیں جنہیں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں ملتے۔
مزید پڑھئے: لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز میں کینسر ریسرچ لیب قائم
اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ سماجی، معاشی، ثقافتی اور مذہبی عوامل لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اور انہیں ہمارے معاشرے میں تبدیلی کے ایجنٹ بننے اور سیکھنے کے مواقع سے محروم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کے ذریعے ہی لڑکیوں کی بہترین پرورش ہوتی ہے اور وہ ذمہ دار شہری بنتی ہیں جو سماجی ترقی میں مثبت اور تخلیقی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
یہ رپورٹ صوبائی محتسب نے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر تحقیقی مطالعہ کرنے اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز اور سفارشات پیش کرنے کی غرض سے ایک کنسلٹنسی کا نتیجہ ہے۔
سندھ میں لڑکیوں کی تعلیم کے مسائل پر ریسرچ اسٹڈی کے نام سے یہ نتائج جمعرات کے روز وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہونے والی ایک تقریب میں سامنے آئے۔
ریجنل سبسڈی پروگرام کے تحت محتسب انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے مرتب کیے گئے اس مطالعے کا اہم مقصد سماجی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، مذہبی اور رسد کے عوامل کی نشاندہی کرنا تھا جو سندھ میں لڑکیوں کی تعلیم کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔
مزید پڑھئے: سندھ کے کالجز 4 سالہ بی ایس پروگرام کے لیے نااہل قرار
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشرے کے کچھ سیاسی، سماجی اور مذہبی قواعد خواتین کے مقام اور معاشرے میں ان کی شناخت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
اسکول جانے والے بچوں کی اکثریت اب بھی تعلیمی اداروں تک رسائی کے قابل نہیں ہے اور ان طلباء کی اکثریت میں لڑکیاں شامل ہیں۔
اس مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عمومی طور پر اسکول کے بچوں اور خاص طور پر لڑکیوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح خاص طور پر دیہی علاقوں میں ایک دائمی مسئلہ ہے۔
جب بچے پرائمری سے سیکنڈری اسکول جاتے ہیں تو ڈراپ آؤٹ کی شرح زیادہ ہو جاتی ہے۔ اسکولوں میں لڑکیوں کی کم سطح کا ایک اہم عنصر سندھ میں مڈل، سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کی کمی ہے۔
عام طور پر والدین اپنی بیٹیوں کو مزید تعلیم کے لیے ان اسکولوں میں بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں جو گھروں سے کچھ فاصلے پر واقع ہیں۔
اسکولوں میں ناپید سہولیات بشمول باؤنڈری والز، شیلٹرز، ورکنگ واش رومز، پینے کا پانی اور دیگر ضروری اشیاء بھی لڑکیوں کو اسکولوں سے نکالنے کا باعث بنتی ہیں۔
ایک اور اہم وجہ اسکولوں میں خواتین اساتذہ کی کمی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ ضروری ہے کیونکہ ثقافتی اصول مخلوط صنفی تعلیمی اداروں کے خلاف ہیں۔ مذکورہ عوامل لڑکیوں کی تعلیم کے راستے میں زیادہ رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں جب وہ بلوغت کے مرحلے میں پہنچ جاتی ہیں۔ یہ عمل ان کی نقل و حرکت کو مزید محدود کرتا ہے جبکہ غربت، کم آمدنی والے خاندانوں کو اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنے سے روکتی ہے۔ لہٰذا یہ تمام عوامل مل جل کر بہت سی لڑکیوں کو اسکول سے دور رکھتے ہیں اور ان کے مستقبل کو مزید دھچکا لگتا ہے جب خاندان محسوس کرتے ہیں کہ ان کی بیٹیوں کو دیگر فوائد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس کے نتیجے میں، سندھ میں غریب خاندانوں کے لیے چائلڈ لیبر آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بن جاتا ہے۔ والدین اپنی لڑکیوں کو تنخواہ یا بغیر تنخواہ کے کام کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں جبکہ کچھ لڑکیاں خاندان کی آمدنی کو بہتر بنانے کے لیے زراعت میں مدد کے لیے کھیتوں میں بھیج دی جاتی ہیں۔
محتسب اعجاز علی شاہ نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم میں پہلا اور اہم مسئلہ اسکولوں تک محدود رسائی ہے۔
( یہ خبر ایکسپریس ٹریبیون کی 22 اکتوبر 2021 کی اشاعت سے اخذ کی گئی ہے)