پنجاب بھر میں مفت اور لازمی تعلیم دی جائے گی
پنجاب بھر میں مفت اور لازمی تعلیم دی جائے گی
پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 25 اے کو شامل کرنے اور اس پر مکمل عمل در آمد کو یقینی بنانے کے لیے 2010 میں ترمیم کی گئی تھی، آئین کی یہ شق ہر پاکستانی بچے کو مفت، اعلیٰ معیار کی اور مساوی تعلیم کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کے چار سال بعد 2014 میں پنجاب اسمبلی نے صوبے بھر میں مفت اور لازمی تعلیم کا ایکٹ منظور کیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ یہ صوبائی قانون سات سال سے نافذ العمل ہے، ابھی تک اس پر اس کی روح کے مطابق عمل در آمد شروع نہیں کیا جاسکا۔
تو ایسے قانون کو پاس کرنے کا کیا مطلب تھا جس کو نافذ کرنے کا حکومت کا کوئی ارادہ نہیں تھا؟
اسلام آباد میں پنجاب کی قائمہ کمیٹی برائے اسکول ایجوکیشن کے اراکین کے ساتھ گول میز مباحثے کے دوران، سینٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشی ایٹووز کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر مختار احمد علی نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمانی سروسز کے ساتھ یہ سوال اٹھایا۔
مزید پڑھیے: معیاری تعلیم کا فروغ اولین ترجیح ہے، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر
سول سوسائٹی کی تنظیمیں جیسے سی پی ڈی آئی، پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹس اور پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن نے اس پارلیمانی گول میز کا انعقاد کیا تھا۔ پنجاب کی صوبائی قائمہ کمیٹی برائے اسکول ایجوکیشن کی چیئرپرسن گول میز کانفرنس کی نظامت عائشہ نواز چوہدری نے کی۔
مختار احمد کے سوال کے جواب میں، انہوں نے سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈرز کو بتایا کہ قائمہ کمیٹی صوبائی محکمہ تعلیم کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور جلد ہی اس قانون کا باضابطہ اعلان کر دیا جائے گا۔
اس قائمہ کمیٹی کی بنیادی ترجیح پنجاب بھر میں مفت اور لازمی تعلیم ایکٹ کا نفاذ ہے۔ ہم جلد ہی اسے مرحلہ وار نافذ کرنا شروع کر دیں گے، اس کا آغاز پنجاب کے سب سے زیادہ کمزور اور پسماندہ علاقوں سے ہو گا۔
ایم پی اے عائشہ نواز چوہدری نے اپنے حتمی ریمارکس میں کہا کہ آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ قانون سازوں، محکمہ تعلیم کے حکام اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کے درمیان مضبوط شمولیت ہے۔