افغان پناہ گزیں لڑکیاں پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے لگیں
افغان پناہ گزیں لڑکیاں پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے لگیں
طالبان کی جانب سے افغانستان کے اسکولوں میں ساتویں سے بارھویں کلاس میں طالبات کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی کے فیصلے کے نتیجے میں کچھ خاندان اپنی بیٹیوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے افغانستان چھوڑ کر پاکستان آرہے ہیں۔
ان لڑکیوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ افغانستن سے ملحق پاکستان کے سرحدی علاقوں میں منتقل ہورہے ہیں۔ تاہم، اسکولوں کی بندش کے باعث کچھ طالبات کو ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان خاندانوں کا کہنا ہے کہ کلاس 6 کے اوپر، اہم اسباق پڑھائے جاتے ہیں۔ اگر لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کریں گی تو ان کا خواندہ ہونا ناممکن ہے۔ طالبان سے درخواست کی جارہی ہے کہ وہ لڑکیوں کے لیے اسکول کھولیں اور تعلیم کا حصول آسان بنائیں۔
ننگرہار کے حکام کا کہنا ہے کہ امارات اسلامیہ کی جانب سے چھٹی جماعت سے اوپر کے لڑکیوں کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کے بعد، اسکول دوبارہ کھولے جائیں گے۔
افغانستان میں متعدد خاندان وزارت تعلیم کی جانب سے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے حکم کے منتظر ہیں۔ محکمہ تعلیم ننگرہار کے ترجمان فرہاد ستانکزئی کے مطابق جب بھی حکم دیا جائے گا میڈیا اور عوام تک خبر پہنچائی جائے گی۔
ساتویں سے بارہویں جماعت کے لڑکیوں کے اسکولوں کو بند کیے ہوئے 400 دن گزر چکے ہیں۔ نگراں حکومت کے بعض عہدیداروں کے وعدوں کے باوجود طالبات کے لیے اسکول ابھی تک دوبارہ نہیں کھل سکے ہیں۔