افغان لڑکیوں کی اقوام متحدہ سے خواتین کی تعلیم کے تحفظ کی اپیل
افغان لڑکیوں کی اقوام متحدہ سے خواتین کی تعلیم کے تحفظ کی اپیل
افغان لڑکیوں کی روبوٹکس ٹیم کی سابق کپتان سمعیہ فاروقی اقوام متحدہ میں عالمی رہنماؤں سے افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور حقوق کے تحفظ کی اپیل کرنے کے بعد اسٹیج کے پیچھے جا کر رونے لگیں۔
پچھلے سال اگست میں، سمعیہ فاروقی نے افغانستان چھوڑ دیا جب طالبان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور 20 سال کی لڑائی کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افواج کو واپس بلا لیا۔ انہوں نے اس ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطح کے اجلاس کے لیے جمع ہونے والے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ متحد ہو کر افغانستان میں لڑکیوں کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کریں۔
ملالہ یوسفزئی، جنہیں 2012 میں پاکستان میں طالبان نے گولی مار کر زخمی کر دیا تھا، نے سربراہان مملکت کی جانب سے لڑکیون کی تعلیم کے لیے کوئی ایکشن نہ لینے پر تنقید کی۔
ملالہ یوسفزئی نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ آپ میں سے اکثر لوگ یہ جانتے ہیں کہ بالکل کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کو چھوٹے، کنجوس اور قلیل مدتی وعدے نہیں کرنے چاہئیں، بلکہ لڑکیوں کے مکمل تعلیم کے حق کو برقرار رکھنے اور فنڈنگ کے فرق کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا عہد کریں۔
رپورٹس کے مطابق، طالبان نے مارچ میں لڑکیوں کے لیے ہائی اسکول کھولنے کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کی تھی۔ بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسیوں کا کہنا تھا کہ سخت پابندیوں اور افغانستان کے معاشی بحران کی وجہ سے، زیادہ تر نوعمر لڑکیوں کو کلاس رومز تک رسائی حاصل نہیں ہے جبکہ ہزاروں خواتین کو ورک فورس سے زبردستی نکال دیا گیا ہے۔
اسلامی قوانین کی خودساختہ تشریح کے مطابق، طالبان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں اور مارچ سے لڑکیوں کے ہائی اسکول کھولنے پر کام کر رہے ہیں۔
رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پیر کے روز ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن سمٹ میں طالبان سے "ثانوی تعلیم تک لڑکیوں کی رسائی پر تمام پابندیاں فوری طور پر ہٹانے" کا مطالبہ کیا۔