افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں
افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آوازیں اٹھنے لگیں
طالبان کابینہ میں شامل کم از کم دو وزرا نے جنگ زدہ ملک میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے اسے اسلامی تعلیمات کے برعکس قرار دیا ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومتوں کے دوران لڑکیوں کی تعلیم ہمیشہ سے ایک پیچیدہ اور متنازع مسئلہ رہا ہے، جس پر اب جنگجو گروہ کے سیاسی رہنما تقسیم نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں افغانستان میں موجودہ طالبان حکومت کے کم از کم دو وزرا خواتین کی تعلیم سے متعلق مثبت رائے کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔
ان میں اہم بیان نائب وزیر خارجہ شیر محمد ستانکزئی کا ہے، جنہوں نے لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کی بندش کو اسلام کی رو سے منافی قرار دیا ہے۔
بین الاقوامی سیاحت کے دن کے موقع پر کابل میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں عباس ستانکزئی نے کہا کہ اسلام کی بنیاد پر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا کوئی جواز موجود نہیں اور کسی کے پاس لڑکیوں کے سکولوں کو بند رکھنے کا کوئی عذر موجود نہیں ہے، کیونکہ تعلیم مرد اور خواتین دونوں پر فرض ہے۔
انہوں نے چھٹی جماعت سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے لیے تعلیمی اداروں کی بندش سے حکومت اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا ہونے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں سینکڑوں علما موجود ہیں جو لڑکیوں کے لیے اسکول کھولنے کی حمایت کرتے ہیں۔
افغان نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ کسی کے پاس لڑکیوں کے اسکول بند کرنے کی کوئی اسلامی وجہ نہیں ہے، لہٰذا ہم افغانستان میں ہر ایک کے لیے اسکول دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں۔
طالبان حکومت کے ایک دوسرے اہم وزیر خالد محمد حنفی نے حال ہی میں کہا تھا کہ افغانستان میں خواتین کے لیے تعلیم کی اجازت ہے۔
خواتین کی تعلیم سے متعلق وزرا کے یہ مثبت سمجھے جانے والے بیانات اقوام متحدہ کے لڑکیوں کے سکول کھولے جانے سے متعلق مطالبے کے بعد خاتون وزیر تعلیم رنگینہ حامدی کی تعیناتی کے فوراً بعد منظر عام پر آئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں گذشتہ سال کے دوران دس لاکھ سے زیادہ لڑکیوں کو زیادہ تر مڈل اور ہائی سکولوں میں جانے سے روک دیا گیا تھا۔ اس پابندی کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی اور ان کے نتیجے میں دو طالبان رہنماؤں کے بیرون ملک سفر پر بھی پابندیاں لگائی گئیں۔