افغانستان میں لاکھوں لڑکیاں اسکول جانے کی منتظر

افغانستان میں لاکھوں لڑکیاں اسکول جانے کی منتظر

افغانستان میں لاکھوں لڑکیاں اسکول جانے کی منتظر

ہفتے کے روز کچھ افغان لڑکیاں صنف کی بنیاد پر بنائی گئی علیحدہ کلاسوں کے ساتھ پرائمری اسکولوں میں واپس آئیں لیکن بڑی عمر کی لڑکیوں کو تاحال اپنا تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کے لیے بے چینی سے انتظار کرنا پڑرہا ہے جس کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کہ وہ کب اور کب سیکنڈری اسکول کی سطح پر اپنی تعلیم دوبارہ شروع کر پائیں گی۔

دارالحکومت کابل کے بیشتر اسکول اپس وقت سے بند ہیں جب طالبان نے ایک ماہ قبل شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔

طالبان حکام کا کہنا ہے کہ وہ بنیاد پرست پالیسیوں کو دوبارہ نہیں اپنائیں گے، بشمول لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی کے، جسے اس وقت عائد کیا گیا تھا جب انہوں نے آخری بار 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کی تھی۔

مزید پڑھئے: آئی بی اے میں وبائی مرض کے دوران پاکستان کی معیشت کا جائزہ

انہوں نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ لڑکیاں تعلیم حاصل کرسکیں گی، لیکن صرف الگ الگ کلاس رومز میں۔

کابل کے ایک پرائیویٹ اسکول کی ٹیچر نے کہا کہ طالبان کے قبضے سے پہلے شہر میں واقع اسکولوں میں مخلوط کلاس روم تھے تاہم انہوں نے ان اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے تبدیلیاں کی ہیں اور کلاس رومز کو الگ الگ کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لڑکیاں صبح کے اوقات میں اور لڑکے دوپہر کی شفٹ میں پڑھتے ہیں۔ مرد اساتذہ لڑکوں کو پڑھاتے ہیں اور خواتین اساتذہ لڑکیوں کو پڑھاتی ہیں۔

تاہم، اسکول میں پرائمری اور سیکنڈری دونوں سطحوں پر پڑھنے والی بہت سی دوسری لڑکیوں کے لیے تاحال ایک غیر یقینی صورتحال ہے۔

جمعہ کے روز وزارت تعلیم نے کہا کہ لڑکوں کے سیکنڈری اسکول جلد ہی دوبارہ کھل جائیں گے، لیکن اس بیان میں لڑکیوں کے اسکولوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھئے: اٹک کا انوکھا اسکول، 12 کلاسوں کے لیے صرف 1 استاد دستیاب

اسکول کی سیکنڈری لیول کی طالبات کو پڑھانے والی ایک ٹیچر نے کہا کہ خواتین اساتذہ کے حوصلے پست ہیں اور وہ حکومتی اعلانات کا انتظار کر رہی ہیں تاکہ وہ دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع کر سکیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتے کے روز ایک مقامی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں لیکن انہوں نے اس حوالے سے کسی باضابطہ تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔

اسکول کے پرنسپل محمد رضا نے کہا کہ لڑکوں کی تعلیم ایک خاندان کو متاثر کر سکتی ہے لیکن لڑکیوں کی تعلیم معاشرے کو متاثر کرتی ہے کیونکہ لڑکیوں کی تعلیم نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں تاکہ لڑکیاں اپنی تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کر سکیں اور اپنی تعلیم کو مکمل کر سکیں۔

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو