قدیم ٹیکسلا یونیورسٹی کی ثقافتی اہمیت کو بحال کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں
قدیم ٹیکسلا یونیورسٹی کی ثقافتی اہمیت کو بحال کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں
پاکستان مختلف تہذیبوں کا مرکز ہونے کی وجہ سے تہذیبی و ثقافتی رنگا رنگی کا مظہر ہے۔ یہاں گندھارا، انڈس، مہر گڑھ، عرب، افغان، منگول، مغل، فارسی، ترک اور انگریزوں کے ہزاروں سالوں پر محیط ثقافتی ورثے کے مختلف رنگ اور آثار پائے جاتے ہیں جو دنیا کی توجہ کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ پاکستان ایک منفرد جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے جہاں ساحلوں سے لے کر صحراؤں اور میدانی علاقوں سے لے کر برف پوش پہاڑوں تک فطرت کی رنگا رنگی دکھائی دیتی ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کو یہاں مختلف طرح کے فن تعمیرات کے مناظر، مختلف زبانیں، ملبوسات اور انواع و اقسام کے کھانے ملتے ہیں جب وہ ملک میں جنوب سے شمال یا مشرق سے مغرب تک جاتے ہیں۔
قدیم ٹیکسلا یونیورسٹی، جو کبھی اس خطے میں گندھارا تہذیب کا سب سے بڑا سیکھنے کا مرکز تھا، اسے عالمی تاریخ میں اعلیٰ تعلیم کی پہلی مثال کے طور پر بڑے پیمانے پر تسلیم کیا گیا۔ یہ شہر دنیا کے سب سے اہم بدھ آثار قدیمہ رکھنے والے مقامات میں سے ایک ہے۔ اسے 1980 میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ نامزد کیا، جو پاکستان کے جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے قریب واقع ہے۔ مورخین کے مطابق ٹیکسلا کی یہ قدیم یونیورسٹی 5 سے 6 صدی (قبل مسیح) کے قریب قائم کی گئی تھی اور 5 ویں صدی میں اس کی تباہی تک پوری دنیا کے طلبا کو اپنی جانب راغب کرتی رہی۔
مزید پڑھیں: بورڈ آف انٹرمیڈیٹ حیدر آباد کے نتائج میں 99 فیصد طلبا کامیاب
تنوع کی علامت کے طور پر ٹیکسلا کو اپنی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کے لیے مناسب توجہ دی جانی چاہیے۔ لہٰذا، دھرماراجیکا کمپلیکس اور اسٹوپا کے بدھسٹ آثار قدیمہ کے مقامات کو ایک بار پھر بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی اوراعلیٰ تعلیم کی فراہمی کے لیے ایک اہم مرکز بنایا جاسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹیکسلا میں مذہبی اور تعلیمی سیاحت کی بڑی صلاحیت ہے اور اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے بین الاقوامی تعلیمی شہر بھی بنایا جاسکتا ہے۔
ڈائریکٹر آرکائیوز ڈیپارٹمنٹ پنجاب مقصود احمد نے اے پی پی کو بتایا کہ ٹیکسلا کو پہلے ٹاکشاشیلا کے نام سے جانا جاتا تھا جس کا ذکر 5 ویں صدی میں سری لنکا میں لکھی جانے والی بدھ مت کی جاتک کتھائوں (کہانیوں) میں بھی ملتا ہے۔ اس تناظر میں ٹیکسلا کا تذکرہ گندھارا مملکت کا دارالحکومت اور ایک عظیم سیکھنے کے مرکز کے طور پر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نام ور چینی سیاحوں فا ہیان (فاکسیان) اور ہوئین سانگ (ژوان زانگ) نے بھی اپنی تحریروں میں ٹاکشا شیلا کے بارے میں بات کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سارے لوگ آج ایک قدیم تہذیب کے عجائبات کا تجربہ کرنے ٹیکسلا جاتے ہیں۔
مقصود احمد کا کہنا تھا کہ مسلم دنیا جو ایک زمانے میں دانشورانہ عجائب کا ایک مرکز تھا، خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں جس کی عظمت کو تسلیم کیا جاتا تھا آج بدقسمتی سے اپنی عظمت کھو چکی ہے، لیکن اگر ٹیکسلا پر سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے مقصد کے ساتھ توجہ مرکوز کی جائے تو اسے ترقی کا مرکز بنایا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں غیر ملکی طلباء خصوصاً برصغیر، وسطی ایشیائی اور دوسرے ممالک سے اس طرف راغب ہوں گے۔
مزید پڑھیں: اسکول بند کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، مراد راس
انہوں نے کہا کہ یہ قدیم یونیورسٹی جو کسی زمانے میں تعلیم اور حصولِ علم کا ایک اہم مرکز تھا اسے اس تصور کے ساتھ ایک ایسی جگہ بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا جہاں روشن فلسفیانہ اور سائنسی ذہن رکھنے والے طالب علم جدید تعلیم حاصل کرنے کے لیے جمع ہوسکیں۔
مقصود احمد نے کہا کہ فارسی فاتحین نے ٹیکسلا یونیورسٹی کو ایک ایسا کائناتی ماحول دیا جس میں متعدد ثقافتیں اور نسلیں اپنے علم کا تبادلہ کرسکتی تھیں، انہوں نے مزید کہا کہ موریہ سلطنت اور یونانی حکمرانی (ہندو یونانی) کے تحت تیسری اور دوسری صدی قبل مسیح میں بھی قدیم ٹیکسلا یونیورسٹی کا فیضان، علم کے مرکز کے طور پر جاری و ساری رہا۔ انہوں نے کہا کہ جب سکندر کی فوجیں چوتھی صدی قبل مسیح میں پنجاب آئیں۔ اس وقت ٹاکشاشیلا سیکھنے کے ایک اہم مرکز کے طور پر پہلے ہی شہرت حاصل کرچکا تھا۔ اس طرح واپسی پر سکندر وہاں سے بہت سے علماء کو اپنے ساتھ یونان لے گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس عظیم ادارے کو آخری دھچکا ہُنز (رومن سلطنت کو تباہ کرنے والے) سے بھی پہنچا، جنہوں نے 5 ویں صدی میں اس ادارے کو ختم کر دیا تھا۔
ٹیکسلا میوزیم کے لائبریری کیوریٹر عبد الناصر خان نے بتایا کہ طلباء تعلیم حاصل کرنے کے لیے چین، بابل (عراق) ، شام، یونان اور ہندوستانی برصغیر سمیت پوری دنیا سے یہاں آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کیمپس میں سائنس، ریاضی، طب، سیاست، جنگی حکمت عملی، علم نجوم، فلکیات، موسیقی، رقص، مذہب، ویداس، گرائمر، زراعت، سرجری (جراحت)، تجارت، مستقبل بینی اور فلسفہ سمیت متعدد مضامین پڑھائے جاتے تھے۔
مزید پڑھیں: اسکول کب بند ہوجائیں کچھ نہیں معلوم، سعید غنی
انہوں نے مزید کہا کہ اپنی گھریلو اور بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ثانوی تعلیم کے لیے 16 سال کی عمر میں لگ بھگ 10،500 طلباء نے آشرم میں داخلہ لیا تھا، جب ٹاکشاشیلا میں داخلے کا امتحان انتہائی کٹھن تھا اور بڑی مشکل سے ہر 10 میں سے تین طلبا کو ٹیسٹ کے بعد یہاں مزید پڑھنے کے لیے داخلہ دیا جاتا تھا۔