وزیر صحت کے انتباہ کے باوجود سندھ حکومت اسکول دوبارہ کھولنے کے موقف پر قائم
وزیر صحت کے انتباہ کے باوجود سندھ حکومت اسکول دوبارہ کھولنے کے موقف پر قائم
اگرچہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے 28 ستمبر سے اسکول کھولنے کے حوالے سے خبردار کیا تھا تاہم وزیر تعلیم سندھ سعید غنی مذکورہ تاریخ سے تمام جماعتوں کے لیے آن کیمپس کلاسز شروع کرنے کے فیصلے پر قائم ہیں۔
سعید غنی نے ایس او پیز کے نفاذ کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے مختلف اسکولوں اور کالجز کا دورہ کرنے کے بعد ایک ویڈیو بیان میں اس موقف پر زور دیا۔
اپنے غیر اعلانیہ دوروں کے دوران انہوں نے جمعرات کے روز تمام تعلیمی اداروں کو ہدایت کی کہ کورونا سے متعلق ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
صوبائی وزیر تعلیم نے شرقی اور وسطی اضلاع میں محکمہ تعلیم کے دو عہدیداروں کو نوٹسز بھی جاری کیے اور ان سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکامی پر وضاحت طلب کی۔ بعد میں سعید غنی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں کورونا وائرس کے کیسز میں کمی آئی ہے اور صورتحال میں بہتری آئی ہے۔
جب ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ اب کورونا کیسز کی زیادہ تعداد کیوں رپورٹ ہورہی ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔
مزید پڑھیں: آغا خان یونیورسٹی نے ٹیچرز اکیڈمی کا افتتاح کردیا
تشویش میں اضافہ
دوسری جانب صوبائی وزیر صحت عذرا فضل پیچوہو نے خبردار کیا کہ وہ اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے معاملے میں مزید مداخلت نہ کریں۔
یہ بات انہوں نے ایک نجی ٹیلی وژن چینل کے ایک پروگرام میں بات چیت کے دوران کہی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اسکولوں کو کم سے کم ڈیڑھ ماہ تک بند رکھنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے کیسز ایک بار پھر عروج پر ہیں اور ایسی صورتحال میں کیمپس میں کلاسز دوبارہ شروع کرنا عقلمندی نہیں ہوگی اور یہ امر
خاص طور پر بچوں کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے ان کے ترجمان نے کہا کہ کورونا وائرس کے واقعات میں 1.3 فیصد سے تین فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس مرحلے پر اسکولوں کا دوبارہ کھلنا وبائی مرض کی دوسری لہر کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔
دوسری جانب وزیر اعلی سندھ اس موقف پر قائم ہیں کہ صوبے میں کورونا کے کیسز میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے تعلیمی اداروں میں 39،765 افراد کے ٹیسٹوں کے نتیجے میں 185 افراد میں کورونا وائرس کے رزلٹ مثبت آنے کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا۔
جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے اور ہم سب کو بچوں کی صحت کے بارے میں محتاط رہنا ہوگا۔
مزید پڑھیں: سندھ حکومت نے نجی اسکول کو سیل کردیا، غیر حاضر فیکلٹی کو نوٹس جاری
وفاق پر تنقید
علاوہ ازیں سندھ میں بارشوں کی تباہ کاریوں کے بارے میں وزیراعلیٰ نے مرکز کو شدید الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کسی بھی وفاقی وزیر نے سندھ میں بارش سے متاثرہ لوگوں کی پرسش کرنے کی زحمت نہیں کی ، جبکہ شہری تکلیف اور اذیت میں مبتلا ہیں۔ اگست میں موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے ہونے والی بڑے پیمانے پر تباہی کی بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے پر تجاوزات کو آفتوں کا ذمہ دارقرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ذاتی طور پر برساتی نالوں کے ساتھ عمارتوں کی تعمیر کا مشاہدہ کیا ہے، ان غیر قانونی تعمیرات کے لیے مختلف بلڈرز کو لیز جاری کردیئے گئے تھے اور اب وہ اس طرح کام کررہے ہیں جیسے یہ شہر ان کی ذاتی ملکیت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کا نکاسی آب کا نظام 50 سال پرانا تھا اور شدید بارشوں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ انہوں نے شہر کے قدرتی آبی گزرگاہوں کی بحالی، نالوں کے ساتھ قائم تجاوزات کو ختم کرنے اور سیوریج کے موجودہ نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کھارادر، کے ڈی اے چورنگی، سرجانی ٹاؤن کے قریب اور ملیر کے کچھ علاقوں میں نکاسی آب کے نئے نظام کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: آڈٹ گروپ سے عبد الولی خان یونیورسٹی کا خزانچی مقرر کیا جائے گا
دیہی علاقوں میں بارشوں کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ صوبے کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے، جہاں بارشوں میں 136 افراد جاں بحق، 86 زخمی اور 15،233 دیہات زیرآب آگئے۔
انہوں نے وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وفاق نے صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا اور عملی طور پر کوئی مدد نہیں کی