چہرے کی شناخت اور شاور کی بکنگ: چینی یونیورسٹیز کیسے کھل رہی ہیں
چہرے کی شناخت اور شاور کی بکنگ: چینی یونیورسٹیز کیسے کھل رہی ہیں
بیجنگ (رائٹرز) چین میں کورونا وئرس کے کیسز میں بڑی حد تک کمی آچکی ہے جس کے بعد دنیا میں یونیورسٹی طلباء کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والے چین میں لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد لاکھوں طلباء واپس کیمپس جارہے ہیں۔
یونیورسٹیز میں طلباء اور تدریسی عملے کی حفاظت کی غرض سے نگرانی کے جدید آلات کی تنصیب کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ چین کی پیکنگ یونیورسٹی میں طلباء کی شناخت کے لیے کیمرا کنٹرول آلات کی تنصیب کی گئی ہے جہاں طلباء کو چہرے کی شناخت کے بعد ہی کیمپس میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔
مزید پڑھیں: احساس انڈرگریجویٹ اسکالرشپ پورٹل 5 ستمبر کو آن لائن ہوگا
یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس پر قابو پانے اور لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد سبھی یونیورسٹیز میں چینی طلبہ آہستہ آہستہ اپنے کیمپس میں واپس آجائیں گے۔ چینی یونیورسٹیز میں وبائی امراض کے مہینوں کے بعد چہل پہل نظر آنے لگی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ موسم خزاں کے سیمسٹر کے ساتھ ہی طلباء کی بڑی تعداد نے یونیورسٹیز کا رخ کیا ہے۔
کچھ یونیورسٹیز نے اپنے طلباء کے کھانے، نہانے اور سفر کرنے کے طریقوں کے حوالے سے کچھ سخت اصول اپنائے ہیں جن پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ بیجنگ، نانجنگ اور شنگھائی کے طلبا نے رائٹرز کو بتایا کہ انہیں اپنی نقل و حرکت کی تفصیلی رپورٹ پیش کرنا ہوگی اور کیمپس میں ہی رہنا ہوگا۔
بیجنگ کی رینمن یونیورسٹی کے ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے طلباء کے لیے ہدایت نامہ تو جاری کردیا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ درخواست دینے کا کوئی مخصوص عمل ہوگا یا کون سی وجوہات کو معقول سمجھا جائے گا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کا پہلا مدرسہ انکیوبیشن سینٹر لاہور میں قائم کیا جائے گا
رینمن یونیورسٹی نے اس حوالے سے اپنا موقف پیش کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک نوٹس کی تصدیق کی گئی ہے کہ طلباء کو کیمپس چھوڑنے کے لیے درخواست دینی ہوگی۔ اسی دوران سرکاری طور پر خریداری کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ درجنوں یونیورسٹیز نے چہرے کی شناخت، رابطے کا پتہ لگانے اور درجہ حرارت کی جانچ پر مبنی "ایپیڈیمک کنٹرول" نگرانی کے نظام خریدے ہیں۔
چین میں 20 ملین سے زیادہ یونیورسٹی طلباء ہیں اور زیادہ تر مشترکہ ہاسٹل رومز میں کیمپس میں رہتے ہیں جو صحت کے حکام کے لیے ایک طرح کا چیلنج ثابت ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب چینی سوشل میڈیا پر طلباء نے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کی حمایت کی ہے۔