سی اے آئی ای کی امتحانی پالیسی میں ابھی بہت کچھ غیرواضح ہے
سی اے آئی ای کی امتحانی پالیسی میں ابھی بہت کچھ غیرواضح ہے
وبائی امراض کی آمد پاکستان میں طلباء کے لئے شدید پریشانی کا باعث رہی ہے۔ خاص طور پر بین الاقوامی پروگرامز، غیرملکی امتحانات اور بیوروکریسی کے درمیان پھنسے ہوئے طلبا اپنے مستقبل کے بارے میں بے حد فکر مند ہیں۔
کیمبرج اسسمنٹ انٹرنیشنل ایجوکیشن (سی اے آئی ای) کے طلبا کے لیے جنہیں گذشتہ برس امتحانات کی ناکافی پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑا، اب ان کے لیے2021 میں چیلنجز، خوف اور پیچیدگیوں کا ایک نیا مجموعہ سامنے آیا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستانی اسٹارٹ اپ نے پری سیڈ فنڈنگ کی مد میں 3لاکھ 20 ہزار ڈالرزجمع کرلیے
سی اے آئی ای کی تازہ ترین پالیسی کے مطابق ملک کے سب سے بڑے بین الاقوامی امتحانات نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ 15 مئی کے بجائے اپنے او لیول کے امتحانات کو 10مئی سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن کورونا وائرس کے باعث اسکولوں کی بندش کی وجہ سے جہاں اسکولوں اور طلباء کو نصاب میں کمی کی توقع تھی، وہیں اس کے بجائے عملی امتحانات کو اسسمنٹ پلان سے ہٹانے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے تمام اسکولوں اور طلبا کو مئی، جون 2021 کی امتحانات کی سیریز سے دستبردار ہونے کا آپشن بھی پیش کیا، جس کی آخری تاریخ 17 اپریل ہے۔
طلباء کو خوف ہے کہ نئی حکمت عملی نظری امتحانات (تھیوری ایگزامز) کی اوسط مارکنگ کو تبدیل کردے گی، پاکستان میں کیمبرج سے وابستہ 50 فیصد اسکولوں، بشمول کراچی کے اسکولوں نے اسی طرح مئی، جون اے ایس اور اے لیول کے امتحانات چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ وہ اسکول جو اب بھی سی اے آئی ای کو اندراجات بھیج رہے ہیں، وہ بھی اس بارے میں واضح نہیں ہیں کہ نئی پالیسی کے نفاذ سے طلباء کے نتائج پر کیا اثر پڑے گا۔
دوسری طرف مقامی بورڈز کووڈ نائنٹین کے پیش نظر کم نصاب کی بنیاد پر ماڈل پیپرز کے اجراء کے ساتھ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طالب علموں کے ساتھ زیادہ مہربان رویے کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ جس کے جواب میں اے اور او لیول کے متعدد طلباء بھی کراچی میں احتجاج کرتے ہوئے دیکھے گئے، انہوں نے برطانیہ میں قائم بورڈ سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی اسی طرح کا ماڈل اپنائیں یا مئی ، جون کے امتحانات کو مزید کچھ عرصے کے لیے موخر کریں۔
ایک نجی اسکول کے اساتذہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سی اے آئی ای نے ابھی تک اس پر کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے کہ عملی امتحانات (پریکٹیکلز) کے خاتمے سے گریڈنگ کے باقی عمل پر کیا اثر پڑے گا۔
طلبا کی اکثریت نظریاتی اسکور کی بنیاد پر باڈی گریڈنگ کے عملی حصوں کی جانچ کرنے کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہے جو بہت سے اسٹوڈنٹس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اس تناظر میں ایسے طلبا کے بارے میں فکر مندی ظاہر کی جارہی ہے جو عملی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں بہتر ہیں لیکن تھیوری ایگزامز دینے میں اتنے اچھے نہیں ہیں۔ اگر گریڈ کو نظریہ کی بنیاد پر ہونا ہے اور کوئی طالب علم اس حصے میں ناکام ہوجاتا ہے تو پھر امکان ہے کہ وہ طالب علم عملی طور پر بھی ناکام ہوجائے گا اور یہ سب مل کر اس کی مجموعی کارکردگی کو برباد کر دے گا۔
کیمبرج کے امتحانات کی پریکٹس سے وابستہ افراد کی ایک اور کلیدی پریشانی یہ بھی ہے کہ پاکستانی امیدواروں کے لیے او لیول کے امتحانات کو ری شیڈول کرنے کا کیا مطلب ہے۔
مزید پڑھیں: 2 سالہ بی اے، بی کام غیر مستند قرار، طلبہ داخلے نہ لیں، محکمہ ایجوکیشن سندھ
جبکہ حال ہی میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستانی طلباء 10 مئی سے اپنے امتحانات کا آغاز کریں گے جبکہ خطے کے باقی ممالک میں 26 اپریل سے اس کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔
موجودہ حالات نے بہت سے لوگوں کو اس بارے میں پریشان کررکھا ہے کہ آیا پاکستان سے تعلق رکھنے والے او لیول کے طلباء کے لیے علیحدہ پرچے چھاپے جائیں گے یا وہ ایک بار پھر وہی پرچے دے رہے ہوں گے۔
اس سلسلے میں جب ان سے بات چیت کی گئی تو سی اے آئی ای کے ترجمان نے انکشاف کیا کہ وہ ابھی تک لاجسٹکس کے بارے میں واضح نہیں ہیں جبکہ ابھی بھی اس منصوبے پر کام جاری ہے۔
اس کے علاوہ امتحان میں تاخیر سے پاکستانی طلبا کے لیے نتائج کے اعلانات بھی دیر سے ہونے کا امکان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بار اسلامی جمہوریہ سے او لیول کے امیدواروں کو خطے کے اعلیٰ اسکوررز میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔
اس تشویش کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے سی اے آئی ای انتظامیہ نے پاکستان کے لیے نتائج کے اعلانات میں تاخیر کے امکان کی تصدیق کی، انہوں نے مزید کہا کہ یہ تبدیلیاں پاکستانی حکومت کی درخواست پر کی گئی ہیں۔
ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا ہم توقع کرتے ہیں کہ پاکستانی طلبا کے پاس اس طرح نظر ثانی کے لیے تھوڑا سا زیادہ وقت ہوگا، جس کے نتائج پر مثبت اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔