یونیورسٹیز بدحالی کا شکار
یونیورسٹیز بدحالی کا شکار
تعلیم، اندھیرے سے روشنی کی جانب بڑھنے کی تحریک ہے۔
تعلیم ایک ایسی چیز ہے جسے انسان سے کوئی نہیں چھین سکتا
مگر یہاں سوال یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ تعلیم کہاں ہے؟
یہ سوال اکیڈمیا کے ذریعہ اٹھایا جارہا ہے اور یہ ان تمام افراد کا سوال بھی ہے جنہیں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو درپیش مسائل پر تشویش ہے۔
کچھ معاملات میں پچھلے کئی سالوں سے فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اور یونیورسٹی اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہوں کی تاخیر سے ادائیگی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں خاص طور پر اساتذہ میں احساسِ محرومی پیدا ہورہا ہے۔
مزید پڑھیں: سندھ میں میٹرک اور انٹر بورڈ کے امتحانات جون یا جولائی میں ہوں گے
گذشتہ 10 سال کے دوران اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کردہ رقم میں صرف 8 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے مقابلے میں مالی اعانت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری جانب یونیورسٹیز کے لیے مختص ترقیاتی فنڈز کے اجرا میں تاخیر سے مالی اعانت کا مسئلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
رواں مالی سال کے لیے حکومت نے ایچ ای سی کے لیے 64 ارب روپے مختص کیے ہیں لیکن اب تک صرف 35.3 ارب روپے ہی جاری کیے گئے ہیں جو کہ کُل منظور شدہ رقم کا 55 فیصد بنتا ہے۔
گذشتہ ایک دہائی میں ایچ ای سی کا ترقیاتی فنڈ مجموعی وفاقی بجٹ کے 5 فیصد سے بھی کم رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پبلک یونیورسٹیاں اب شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔
گذشتہ ہفتے یونیورسٹی آف پشاور نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے ملازمین کے لیے جنوری کی پوری تنخواہ ادا نہیں کرسکے گی اور صرف بنیادی تنخواہ ہی ادا کی جائے گی۔
کہا جاتا ہے کہ جامعات کو طویل عرصے سے مالی پریشانی کا سامنا ہے اور اس کی وجہ اسٹاف کا حد سے متجاوز ہونا، کمزور معاشی نظام اور بڑھتا ہوا پنشن بل ہے۔
ماہرین، اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کو اپنے معاملات کو تدبر کے ساتھ منظم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ آمدنی کے مطابق اپنے اخراجات کو کم کرنا ایک معقول تجویز ہے۔
مزید پڑھیں: ایچ ای سی نے بین الاقوامی اسکالرشپ پروگرام کے تحریری ٹیسٹ کی تاریخ کا اعلان کردیا
اطلاعات کے مطابق سندھ یونیورسٹی کے بینک اکاؤنٹ میں صرف 20 لاکھ روپے کی رقم رہ گئی ہے۔ دوسری جانب دیگر جامعات کی مالی صحت بھی بہتر نہیں ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے دیگر ادارے بھی اسی طرح کے مالی بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔
یہ ایک سنگین صورتحال ہے جس میں حکام کو اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ تعلیم اندھیرے سے روشنی تک کی جانب بڑھنے کی تحریک ہے۔ تعلیم ایک ایسی چیز ہے جسے انسان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔