کے پی کی دانش گاہوں پر تاریک سائے منڈلانے لگے
کے پی کی دانش گاہوں پر تاریک سائے منڈلانے لگے
صوبہ خیبرپختونخوا میں اعلیٰ تعلیم کی حالت تشویشناک ہے۔
خیبر پختونخوا میں اعلیٰ تعلیم کی سیٹیں تاریک سایوں کی لپیٹ میں ہیں۔ جبکہ گورنر کے پی کا یونیورسٹیوں کے چانسلر کے طور پر خیال ہے کہ زیادہ تر وائس چانسلرز نااہل اور کرپٹ ہیں۔
اطلاعات کے مطابق عوامی گفتگو کے دوران زبانی احکامات کے ورژن کو فروغ دینا اور عوامی اور نجی مقامات پر وی سیز کو ڈانٹنا ان کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔
مزید پڑھئے: پنجاب حکومت نے اسکولوں کے لیے 3.55 ارب روپے جاری کردیے
یونیورسٹیوں کے اسٹریٹجک مینیجر کے طور پر، ڈیموکلس کی تلوار وی سیز کے سر پر لٹکی ہوئی ہے۔ جس کے نتیجے میں ، یونیورسٹیاں غیر یقینی صورتحال اور مشکوک مستقبل کا سامنا کر رہی ہیں۔
یونیورسٹیاں اپنے طلباء کو علم اور مہارت سے آراستہ کرتی ہیں تاکہ وہ معاشرے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔ وہ طلباء کو انوویشن، سیکھنے اور ایجادات کے ذریعے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور جذبات کو دریافت کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ جس کے لیے انہیں انتظامی جبر کے بغیر آزاد ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ تصورات اور تخلیقی صلاحیتیں صرف ایسے ماحول میں پھلتی پھولتی ہیں جو سوچ اور مکالمے کی آزادی سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ عمل پیشرفت اور ترقی کی طرف جاتا ہے۔
مزید پڑھئے: مردان کی طالبہ نے ملکی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا
کے پی میں 2012 کے یونیورسٹی ایکٹ نے یونیورسٹیوں کو موثر اور قابلِ عمل طریقے سے کام کرنے کی خود مختاری دی۔ اس ایکٹ نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بڑھانے کے مقصد سے فیصلہ سازی کے عمل میں شرکت کی دعوت دی۔ اس کے علاوہ، اس میں یونیورسٹی کے نصاب کو منظم کرنے کے لیے ایک نظام کا نفاذ بھی شامل تھا۔
اس خود مختار نظام کے اندر رہتے ہوئے یونیورسٹی کے امور کے لیے زیادہ تر وی سی ذمے داری اٹھاتا ہے اور ان اقدار کو نافذ کرتا ہے جو وہ طلبہ میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
اسی ایکٹ کے تحت، وائس چانسلرز کو یونیورسٹیوں کے چیف ایگزیکٹو اور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کے عہدے دیئے گئے ہیں۔
یونیورسٹی کے تمام انتظامی، تعلیمی اور مالی امور کے لیے یونیورسٹی کا وی سی ذمے دار ہے۔ قانون ساز سمجھتے ہیں کہ بڑی تنظیموں کی طرح یونیورسٹیاں بھی ہنگامی حالات اور غیرمتوقع صورتحال کا تجربہ کرتی ہیں۔ لہٰذا ، وی سی کو مختلف ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے وسیع انتظامی اختیارات دیے گئے ہیں۔
قانون وی سیز کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ یونیورسٹیوں کے امور میں شفافیت اور روانی کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اقدامات کریں۔ معیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے وی سی، انتظامی عملے اور تدریسی فیکلٹی کو مختلف امور اور ذمے داریاں تفویض کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ وی سی کو اس بات کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ یونیورسٹی کا بجٹ مختلف محکموں اور شاخوں کو مناسب طریقے سے مختص کیا جائے۔ فنڈز کی تقسیم کو بہتر بنانے کے لیے تدریسی عملے کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی کیا جائے۔
یونیورسٹیز کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے مزید عارضی عہدے ہونے چاہئیں جو ایک سال تک جاری رہیں۔ یونیورسٹی کے مختلف مفادات کو ترجیح دینے کے لیے وی سیز کو مختصر مدت کے لیے تدریسی عہدوں کو پُر کرنا ہوگا۔
وی سیز کو دیئے گئے اختیارات بے لگام نہیں ہیں ان کا باقاعدہ جائزہ، سنڈیکیٹ اور سینیٹ جیسی نگرانی کرنے والی تنظیمیں لیتی ہیں۔
یونیورسٹی ایکٹ 2012 کے تحت، وی سی کی طرح چانسلر بھی یونیورسٹی کے افسران میں سے ایک ہے۔ لہٰذا، چانسلر کو ایکٹ کے مطابق عمل کرنا چاہیے اور اس کے مطابق پالیسیاں بنانی چاہئیں۔
چانسلر سینیٹ کو کارروائی کا حوالہ دے سکتا ہے اگر اسے لگتا ہے کہ یونیورسٹی کے معاملات کو غیر منظم کیا جا رہا ہے، تو وہ کہہ سکتا ہے کہ ایک ماہ کے اندر ان کارروائیوں پر دوبارہ غور کیا جائے۔
اگر دوبارہ غور کرنے کا عمل ناکام ہو جاتا ہے یا چانسلر اس سے مطمئن نہیں ہوتا تو وہ سینیٹ سے مطالبہ کر سکتا ہے کہ وہ وجہ بتائے کہ کارروائی کیوں منسوخ نہ کی جائے۔
یونویرسٹی ایکٹ کے سیکشن 20 کے تحت، کسی بھی اتھارٹی سے متعلق کوئی بھی معاملہ سینیٹ کو بھیجا جا سکتا ہے۔
اگرچہ چانسلر کو سیکشن 21 کے تحت انکوائری کرنے کا اختیار حاصل ہے، تاہم رپورٹ سینیٹ کو بھیجی جانی لازمی ہے۔
یونیورسٹی ایکٹ وی سی اور دیگر اداروں پر چیک اینڈ بیلنس کا ایک بلٹ میکنزم فراہم کرتا ہے۔ اگر مختلف اقدامات قانون یا پالیسی کے مطابق نہیں ہیں تو چانسلر، وی سی سے وضاحت طلب کرنے کے لیے سینیٹ کا اجلاس بلا سکتا ہے۔ تاہم کے پی میں بدقسمتی سے چانسلر، انکوائری کے لیے چھوٹے سے چھوٹے معاملات کا حوالہ دیتا ہے۔
یہ عمل وی سی کے قابل اعتبار ادارے کی اتھارٹی پر سوال اٹھاتا ہے اور ایکٹ کے ذریعے تصور کیے گئے پورے نظام کو پریشانی سے دوچار کرتا ہے۔ یونیورسٹیاں اس قسم کے میکنزم سے اپنی خودمختاری کھو چکی ہیں۔
چانسلر کے ہاتھوں مزید ذلت سے بچنے کے لیے وائس چانسلرز کسی بھی قسم کے فیصلے کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ لہٰذا صوبے میں اعلیٰ تعلیم ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ اس کی اصلاح کے لیے وی سی کے ادارے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
یونیورسٹیز کے رہنماؤں کو ایکٹ کے فریم ورک میں آزادانہ طور پر اپنے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ کسی مبینہ یا مشتبہ خلاف ورزی کی صورت میں وائس چانسلر کے احکامات کو ایکٹ کے فراہم کردہ طریقہ کار کے ذریعے منسوخ کیا جانا چاہیے اور صرف ریگولیٹری اداروں جیسے سنڈیکیٹ اور سینیٹ کو ان مسائل سے نمٹنا چاہیے۔ دیگر ادارے جو ایکٹ سے متعلق نہیں ہیں اننہیں اس سارے عمل میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں ایکسلینس کے مراکز سمجھی جاتی ہیں۔ لہٰذا انہیں متوقع نتائج حاصل کرنے کے لیے موجودہ حکومت کے مثبت رویئے اور سرپرستی کی ضرورت ہے۔