سندھ میں ایم ڈی کیٹ کے پاسنگ مارکس کم کرنے پر غور
سندھ میں ایم ڈی کیٹ کے پاسنگ مارکس کم کرنے پر غور
اتوار کے روز شائع ہونے والی خبر کے مطابق سندھ حکومت حال ہی میں منعقد ہونے والے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز داخلہ ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ)کے پاسنگ مارکس کو کم کرنے کے امکان پر غور کر رہی ہے۔
اس اقدام کے پیچھے مقصد یہ یقینی بنانا ہوگا کہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں نشستیں خالی نہ رہیں۔
اس بات کا انکشاف سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے ہفتے کے روز سندھ اسمبلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مزید پڑھئے: ایم ڈی کیٹ کے امتحانات شیڈول کے مطابق ہی لیے جائیں گے
صوبائی وزیر صحت نے میڈیا کو بتایا کہ دوسرا آپشن جس پر ہم غور کر رہے تھے وہ یہ تھا کہ صوبے کو اپنے طور پر صوبے کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلہ ٹیسٹ منعقد کروانے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت اس بات کو مدنظر رکھتی ہے کہ اس طرح کے اختیارات کو آخری حربہ سمجھا جائے، اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ایم ڈی کیٹ میں شامل ہونے والے امیدوار داخلہ ٹیسٹ سے مطمئن نہیں تھے اور متعلقہ طلباء سندھ سمیت دوسرے صوبوں میں بھی ٹیسٹنگ سسٹم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
ڈاکٹر عذرا فضل نے کہا کہ سندھ حکومت تعلیمی اداروں میں نشستوں کی دستیابی کے پیش نظر کم از کم پاسنگ مارکس کم کرنے کے بعد صوبے کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لیے میرٹ لسٹیں خود تیار کرنے کے آپشن پر غور کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرٹ لسٹیں خود بنانا صوبے کو اپنے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کی تمام نشستیں بھرنے کی اجازت دے گا، بجائے اس کے کہ وہ دوسرے صوبوں کے طلباء کو ان خالی نشستوں پر داخلہ لینے کی دعوت دے۔
مزید پڑھئے: تعلیمی بورڈز کو پوزیشن ہولڈرز کے ناموں کا اعلان نہ کرنے کی ہدایت
انہوں نے وفاقی وزارت برائے قومی صحت کی خدمات، ریگولیشن اور کوآرڈینیشن سے اپیل کی کہ وہ ایم ڈی کیٹ کے بارے میں صورتحال کا تیزی سے جائزہ لے تاکہ ملک میں طلباء کی ایک بڑی تعداد کے تعلیمی مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مجبور کر کے دیوار سے نہیں لگانا چاہیے کیونکہ یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے اور اس مسئلے پر محض خاموش تماشائی کی حیثیت سے کام کرنا ہمارے لیے کوئی آپشن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ایم سی نے ایک غلط مشورے کی پالیسی پر عمل کیا ہے اور گذشتہ سال ایم ڈی کیٹ کی کم از کم پاسنگ مارکس کے فی صد کو 65 فیصد سے کم کر کے60 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ ایسے وقت میں کم سے کم کوالیفائنگ نمبروں کو بڑھانے کی ضرورت نہیں تھی جب کورونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے کالج کے طلباء کی تعلیم غیر معمولی طور پر متاثر ہوئی تھی۔
اس ناجائز فیصلے نے ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک کردیا ہے کیونکہ ان کا تعلیمی کیریئر داؤ پر لگا ہوا ہے۔
پی ایم سی کے بارے میں بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ ہم نے اپنے طلباء کے حقیقی مسائل کو سمجھنے کے لیے ایک خط لکھا ہے لیکن وہ اس مسئلے پر ٹس سے مس نہیں ہورہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا صوبہ قانون اور آئین کے مطابق مکمل طور پر اس بات کا مجاز ہے کہ وہ اپنے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لیے اپنی پالیسی اور ٹیسٹ سسٹم وضع کرے۔
ڈاکٹر عذرا نے وضاحت کی کہ ایم ڈی کیٹ کے غیر منصفانہ نظام کی وجہ سے، صوبے میں دستیاب ڈینٹل سرجری کی بیچلرز کے لیے کل 600 میں سے 492 نشستیں خالی رہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح سندھ کے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں مجموعی طور پر 2600 نشستیں تھیں لیکن ان میں سے 30 فیصد گزشتہ سال پُر نہیں ہو سکیں۔
انہوں نے کاہ کہ صوبے کے پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے پاس دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کو ان سیٹوں کو پُر کرنے کے لیے داخلہ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔
ڈاکٹر عذرا فضل نے خبردار کیا کہ صوبے کو چار سے پانچ سال بعد ڈاکٹروں اور دانتوں کے ڈاکٹروں کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ غیر مقامی طلباء سندھ میں میڈیکل یا ڈینٹل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے پیشے پر عمل کرنے کے لیے اپنے آبائی صوبوں میں واپس چلے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایم ڈی کیٹ کے سوالات وفاقی اور پنجاب کے نصاب پر مبنی تھے جبکہ جب سوالات تیار کیے گئے تو سندھ کے نصاب پر غور نہیں کیا گیا۔
انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب پی ایم سی متعلقہ طلباء کے مسائل کو سمجھنے میں ناکام رہا تو اس نے اپنی تمام وقعت کھو دی۔
کمیشن کو اس صورت میں داخلہ ٹیسٹ نہیں لینا چاہیے جب اس کے پاس مناسب طریقے سے ٹیسٹ منعقد کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو۔
ڈاکٹر عذرا فضل نے یاد دلایا کہ پاکستان میں تمام وفاقی یونٹس کی رضامندی کے بغیر پی ایم سی کو ایک آرڈیننس کے ذریعے ملک پر مسلط کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب سے پی ایم سی وجود میں آیا ہے، ملک میں ڈاکٹروں اور طلباء کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ وفاقی یونٹ بھی ایک دوسرے سے رابطے میں نہیں ہیں۔
صوبائی وزیر صحت کا موقف تھا کہ پی ایم سی نے کوئی فائدہ منظور نہیں کیا کیونکہ وہ قوم کی خدمت کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس نے وفاق کی اکائیوں میں مستقل مزاجی اور اتحاد کو برقرار رکھنے میں بھی ناکام رہا ہے۔