صنعت اور اکیڈمیا کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے

صنعت اور اکیڈمیا کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے

صنعت اور اکیڈمیا کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے

ہفتے کے روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی نائب گورنر سیما کامل نے کہا کہ صنعت اور تعلیمی شعبے کو طلباء کو اپنے متعلقہ شعبوں میں جامع تعلیم کی فراہمی اور تنقیدی سوچ ، صحیح سوالات پوچھنے اور موثر انداز میں بات چیت کرنے کی تربیت دینے کے لیے ٹیلر کورسز کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: طلباء جس قسم کی زبان استعمال کررہے ہیں اسے دیکھ کر شرم آتی ہے، شفقت محمود

سیما کامل، جو حبیب یونیورسٹی کے زیر اہتمام ہونے والے ہائر ایجوکیشن ری شیپنگ نرٹورنگ لیڈرز فار پاکستانز ٹومارو سے خطاب کررہی تھیں، نے صنعتوں اور اکیڈمیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر زور دیا کہ وہ دونوں شعبوں کے درمیان فاصلوں کو ختم کرنے کے لیے عملی طور پر مل جُل کر کام کریں۔

پاکستان میں آج اعلیٰ تعلیم کے بحران اور نوجوانوں کے بڑے پیمانے پر ہونے والے بحران کے پیش نظر، عمل کا وقت آگیا ہے، انہوں نے زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ اگر ہم کچھ کرنے جارہے ہیں تو، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا اور در حقیقت یہ عملی طور پر ممکن کر دکھانا ہوگا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں فرق پڑا ہے۔ اسے زبانی جمع خرچ سے آگے جانا ہے۔

اس کے علاوہ حبیب میٹروپولیٹن بینک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محسن نتھانی نے انڈسٹری سے مطالبہ کیا کہ وہ خواہش مند پیشہ ور افراد کی کوششوں پر تعلیمی اداروں کے ساتھ مناسب رائے دیں تاکہ ان کی ضروریات کو نصاب میں شامل کیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یونیورسٹیاں افرادی قوت، صنعت اور آجروں سے کوئی رائے لیے بغیر آزادانہ طور پر کام کر رہی ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک بڑی تباہی کی طرف گامزن ہیں۔

اکیومن پاکستان کی سی ای او ڈاکٹر عائشہ کے خان نے نشاندہی کی کہ دنیا کس طرح آگے بڑھ رہی ہے جبکہ پاکستان ابھی تک ایک موڑ پر کھڑا ہے۔ اس میں مسابقت کے قابل ہونے کا واحد راستہ یہ ہے کہ کثیر جہتی انٹیلی جنس کی اصطلاح کو ترقی دی جائے۔

مزید پڑھیں: کووڈ 19: پاکستانی گلوکارہ میشا شفیع کا بھی امتحانات ملتوی کرنے کا مطالبہ

حبیب یونیورسٹی کے ویبینار میں اینگرو فرٹیلائزرز کے سی ای او نادر سالار قریشی نے نوٹ کیا کہ فی الحال اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ذریعے جس قسم کے فارغ التحصیل افراد کو تیار کیا جارہا ہے وہ عملی طور پر اہل نہیں ہیں۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ ایسے پروگراموں کا ڈیزائن بنائیں جس کے تحت یونیورسٹیاں اپنی لاگت کو کم کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کریں اور اس کے ذریعے اپنے اسٹوڈنٹس کو اس قابل بنائیں کہ وہ ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو