خیبر پختونخوا کی تعلیم کو دوبارہ معمول پر لانے کی کاوشیں

خیبر پختونخوا کی تعلیم کو دوبارہ معمول پر لانے کی کاوشیں

خیبر پختونخوا کی تعلیم کو دوبارہ معمول پر لانے کی کاوشیں

خیبرپختونخوا کے محکمہ تعلیم کی جانب سے طلبہ کے کھوئے ہوئے وقت کا ازالہ کرنے اور تعلیمی سرگرمیوں کو آن لائن موڈ سے فزیکل کلاس رومز میں منتقل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو مرحلہ وار دوبارہ کھولنے کے اعلان کے بعد خیبر پختون خوا میں حکام آن لائن سے فزیکل کلاس رومز تک تعلیم کے طریق کار کی ہموار منتقلی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ تاہم یہ صوبائی حکومت کو درپیش واحد مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اس نے نہ صرف مطالعات کی بحالی کے لیے مناسب اقدامات کو یقینی بنانا ہے بلکہ طلبا کو مہلک وائرس کے چنگل سے بچانے کے لیے حکمت عملی کو بھی نافذ کرنا ہے، چونکہ تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کی آخری تاریخ 25 جنوری سے یکم فروری تک بڑھا دی گئی ہے لہٰذا طلبا کے ضائع ہونے والے وقت کا ازالہ کرنے اور سیکھنے کی تیاری کے لیے یہ عرصہ بھرپور ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب کی وزارت تعلیم نے عملے کو ویکسینیشن ڈیوٹی سے روک دیا

ملک بھرمیں کورونا وائرس کے پھیلائو پر قابو پانے کے لیے اسکولوں کو مارچ 2020 میں بند کردیا گیا تھا، اس خوف کے سبب کہ بچے متاثر ہوسکتے ہیں یا وائرس کا کیریئر بن سکتے ہیں جس سے معمر افراد کو زیادہ خطرات لاحق تھے۔ اس فیصلے کی وسیع پیمانے پر تعریف کی گئی اور اسکول بند رہے تاہم بچوں کی تعلیم کو نقصان پہنچا۔

جیسے ہی کورونا وائرس کے کیسز میں کمی آئی (پہلی لہر کے بعد) اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سخت ایس او پیز کے ساتھ تعلیمی سرگرمیاں بحال کردی گئیں۔۔

نومبر 2020 میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے آغاز کے ساتھ ہی حکومت نے طلبا کو ٹیوٹرز کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ایک بار پھر تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔

حکومت اور اداروں نے طلباء کے لیے آن لائن کلاسز کا اعلان بھی کیا، تاہم انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی کے مسائل اور آلات کی کمی کی وجہ سے یہ عمل خاص طور پر حال ہی میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں تقریبا بیکار تھا۔

والدین کے لیے یکساں طور پر مشکل کام تھا کہ وہ اپنے بچوں کو الگ سے جدید ڈیوائسز فراہم کریں اور ہر وقت انٹرنیٹ رابطے کو یقینی بنائیں۔

مزید پڑھیں: یکساں قومی نصاب کا آغاز اگست 2021 سے ہوگا، وفاقی وزیرتعلیم

وبائی مرض کی وجہ سے نظام تعلیم کو جس خسارے سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے اس کی روشنی میں ماہرین تعلیم نے کھوئے ہوئے وقت کے ازالے کے لیے اضافی کوششوں پر زور دیا ہے۔

سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر برائے تعلیم قیصر خان نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ہم ایک سال سے اس کی گواہی دے رہے ہیں اور میری رائے میں طلبا کے کھوئے ہوئے وقت کے ازالے کا واحد حل نصاب کم کرنا ہے کیونکہ اس سے طلبا اپنے امتحانات پاس کرنے کے لیے کافی کچھ سیکھ سکیں گے کیونکہ محض امتحانات پاس کرنے کے بجائے سیکھنے پر ہی توجہ دینی چاہیے۔ قیصر خان نے سیکھنے کے عمل کو تیز کرنے کے لیے اضافی کلاسز کے انعقاد کا خیال بھی پیش کیا۔

یکم فروری سے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے کے باوجود محکمہ تعلیم کے حکام نے بتایا ہے کہ 50 فیصد سے زیادہ ادارے خصوصاً سخت علاقوں میں بند رہیں گے۔

 ڈائریکٹر ایجوکیشن کے پی حافظ ابراہیم نے بتایا کہ سخت علاقوں سے ہماری مراد ایسی جگہوں سے ہے جہاں پارہ 1 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم ہوتا ہے جیسے فاٹا کے شروع کے اضلاع، سوات، ضلع دیر کے کچھ حصے، شانگلہ، بٹگرام اور کوہستان کے اضلاع وغیرہ۔

کے پی میں یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ ساڑھے 4 ہزار تعلیمی سہولیات میں بیت الخلا کی کمی ہے جو طلباء کے لیے ایک اور بڑی پریشانی ہے۔

مزید پڑھیں: ایچ ای سی کا یونیورسٹیز کو آن لائن امتحانات منعقد کرانے کا مشورہ

اس موضوع پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابراہیم نے دعویٰ کیا کہ زیادہ تر تعلیمی سہولیات میں بیت الخلا شامل ہیں، تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ حال ہی میں ضم ہونے والے علاقوں کی صورت حال ایک جیسی نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ مسئلے پر قابو پانے کے لیے فنڈز جاری کیے جارہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان علاقوں میں 31 جنوری تک تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں کہا گیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے، تاہم اگر ان علاقوں میں اسکول کھلتے ہیں تو محکمہ تعلیم نے ایس او پیز کو نافذ کرنے کے انتظامات کر رکھے ہیں۔

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو