حکومتی غفلت نے تعلیم کو کاروبار بنا دیا ہے، سپریم کورٹ
حکومتی غفلت نے تعلیم کو کاروبار بنا دیا ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی امین کے مطابق حکومتی بے حسی نے تعلیم کو کاروبار میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے ایک کالج کی فیس 8 روپے تھی، اور اب اسکول میں ایک چھوٹے سے بچے کے لیے 30000 روپے فیس لی جاتی ہے۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مفت تعلیم فراہم کرے۔ حکومت پاکستان کو زلزلہ تعمیر نو اور بحالی اتھارٹی(ایرا) کے پیچھے نہیں چھپنا چاہیے۔
انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز کے پی میں زلزلہ سے متاثرہ اضلاع میں اسکولوں کی تعمیر نہ ہونے سے متعلق سماعت کے دوران دیئے۔ منگل کے روز سپریم کورٹ میں خیبرپختونخوا کے زلزلہ زدہ علاقوں میں اسکولوں کی عدم تعمیر کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے ادارہ برائے بحالی زلزلہ زدگان (ایرا) کو تمام زیرتعمیر منصوبے جون 2022تک مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کے پی حکومت سے پیش رفت رپورٹ اور تعمیر شدہ اسکولوں میں طلبہ و اساتذہ کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔
مزید پڑھئے: تعلیمی ادارے نوجوانوں کو مارکیٹ پر مبنی تعلیم فراہم کریں، صدرمملکت
چیف جسٹس نے چیئرمین ایرا پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ایرا افسران صرف تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں، آپ کے اپنے بچے اسکول سے محروم ہوتے پھر آپ کام کرتے۔
عدالت نے ایرا کو تمام نامکمل منصوبے جون 2022 تک مکمل کرنے کا حکم دیا۔
کیس کی سماعت کے دوران ایرا کے چیئرمین نے کہا کہ 14 ہزار منصوبے مکمل کرنا تھے صرف تین ہزار رہ گئے، تعلیم اور صحت ہماری اولین ترجیح ہے، تعلیم اور صحت کے منصوبے مکمل ہونا رہ گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تعلیم اور صحت آپکی ترجیح ہوتے تو آج مکمل ہوتے، زلزلہ متاثرہ علاقے تو ایک سال میں ہی بن جانے چاہیے تھے، جن اسکولوں کی تصاویر دی گئی ہیں وہ غیر فعال لگتے ہیں۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ حکومتوں کی غفلت نے تعلیم کو صنعت بنا دیا ہے، پہلے 8 روپے کالج کی فیس ہوتی تھی اب چھوٹے بچے کی فیس 30 ہزار ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مفت تعلیم فراہم کرے، کے پی حکومت ایرا کے پیچھے چھپنے کی کوشش نہ کرے۔
ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ اب تک 540 میں سے 238 اسکول مکمل کر چکے ہیں۔ عدالت نے مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی۔