طالبان نے درجنوں طالبات کو کابل یونیورسٹی کے ہاسٹل سے بے دخل کردیا
طالبان نے درجنوں طالبات کو کابل یونیورسٹی کے ہاسٹل سے بے دخل کردیا
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں 2 درجن سے زائد خواتین نے طالبان حکومت کے خلاف احتجاج میں کہا کہ انہیں ہاسٹل سے بغیر کوئی وجہ بتائے بے دخل کردیا گیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق 30 کے قریب طالبات نے کابل یونیورسٹی کے سامنے بھرپور احتجاج کیا۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اُٹھا رکھے تھے جن پر لڑکیوں کو تعلیم کا حق دینے، خواتین کی ملازمتوں اور ہاسٹل سے جبری بے دخلی سے متعلق نعرے درج تھے۔
مظاہرے سے خطاب میں ایک خاتون کا کہنا تھا کہ طالبات کو ہاسٹل سے جبری طور پر بے دخل کردیا گیا ہے اور کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی جس کے باعث طالبات کا تعلیمی سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ ان طالبات کے پاس رہنے کو بھی ٹھکانہ نہیں ہے اس لیے انتظامیہ طالبات کو واپس ہاسٹل میں جگہ دے۔
طالبان اہلکاروں نے ریلی کو منتشر کردیا جس کے بعد مظاہرے کی روح رواں زولیا پارسی نے ’’اے ایف پی‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ آج کا احتجاج ان طالبات کے لیے تھا جنہیں یونیورسٹی کے ہاسٹل سے نکال دیا گیا ہے۔
ادھر طالبان حکومت کی وزارت برائے اعلیٰ تعلیم کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے ہاسٹل کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے طلبا کو بے دخل کیا گیا ہے تاہم بیان میں ان طلبا کی تعداد نہیں بتائی۔
اس سے پہلے افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول کھلنے کے اگلے روز ہی دوبارہ بند کردیئے گئے تھے جو آج تک بند ہیں۔ طالبان وزرا کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے محفوظ ماحول بنارہے ہیں جس کے بعد اسکول کھول دیئے جائیں گے۔