افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، ملالہ یوسفزئی کی طالبان کے فیصلے کی مذمت

افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، ملالہ یوسفزئی کی طالبان کے فیصلے کی مذمت

افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، ملالہ یوسفزئی کی طالبان کے فیصلے کی مذمت

خواتین کی تعلیم کے حق کے لیے سرگرم پاکستانی سوشل ایکٹیوسٹ اور نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے افغان لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کیے جانے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے اسے افغان لڑکیوں اور دنیا کے لیے تباہ کن دن قرار دیا۔

مزید پڑھئیے: خیبر پختونخوا میں لڑکیوں کی اکثریت تعلیم سے محروم

ملالہ یوسفزئی، جو 2012 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے قاتلانہ حملے میں بچ گئی تھیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ جب طالبان نے یہ وعدہ کیا کہ وہ لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دیں گے تو ہم میں سے اکثر کو ان کی نیت پر شک ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان لڑکیوں کو پڑھنے اورت سیکھنے سے روکنے کے بہانے بناتے رہیں گے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اسی طرح کی پابندی 1996 میں لگائی گئی تھی اور اب 2022 میں بھی ان کے ارادوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔   ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ طالبان یونیفارم، اسکول تک پیدل چل کر جانے، لڑکیوں کو علیحدہ کرنے، الگ الگ کلاس رومز اور خواتین اساتذہ کی عدم دستیابی جیسے بہانے بار بار استعمال کریں گے۔ انہوں نے طالبان کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کا افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کرسکتیں۔

مزید پڑھئیے: ایس این سی کی تربیت نہ لینے والے اساتذہ کے خلاف کارروائی ہوگی

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جہاں خواتین کو تعلیم سے محروم رکھا جائے گا وہاں امن اور ترقی نظر نہیں آئے گی۔ ایک الگ ٹوئٹ میں، ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ طالبان نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا کیونکہ وہ تعلیم یافتہ لڑکیوں اور بااختیار خواتین سے خوفزدہ ہیں۔

اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ تعلیم کا حصول ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ طالبان کے تعلیم پر پابندی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے، بلنکن نے کہا کہ امریکہ افغانستان کے عوام کے ساتھ اپنی وابستگی کو بیان کرنے کے لیے طالبان کے اس نئے بہانے کو مسترد کرتا ہے۔

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو