تعلیم میں تفریق پیدا کرنے والے عناصر تک رسائی
تعلیم میں تفریق پیدا کرنے والے عناصر تک رسائی
(اسلام آباد) اگرچہ تعلیم ایک اہم شعبہ ہے تاہم ملک میں رائج دہرے معیار تعلیم کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پی سی ای کے سالانہ کنونشن میں مقررین نے تعلیم میں فرق پیدا کرنے والے عناصر تک رسائی حاصل کرنے اور عدم مساوات کو ختم کرنے کے طریقوں پر اظہارِ خیال کیا۔
جمعرات کے روز اسلام آباد میں اپنے 11 ویں سالانہ کنونشن کے ایک حصے کے طور پر اس بحث کا اہتمام پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (پی سی ای) نے کیا تھا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس ملک نے تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے فوری طور پر مختلف ٹیکنالوجیز کے ساتھ موافقت اختیار کرلی ہے حالانکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے حکومت کو تعلیمی اداروں کی بندش پر مجبور کردیا تھا تاہم ملک میں پہلے سے موجود طریقہٗ تعلیم کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ تعلیم تک رسائی کے مختلف امور پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ مقررین نے "کووِڈ دور میں تعلیم اور اس سے آگے" پر پالیسی مباحثے کے دوران مختلف نکات کو اجاگر کیا۔
مزید پڑھیں: پی ای ایف معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے، ثانیہ کامران
پی سی ای کی نیشنل کوآرڈینیٹر زہرہ ارشد نے وبائی مرض کے دوران ملک کے تعلیمی منظر نامے کے جائزہ کے ساتھ اس بحث کا آغاز کیا۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کورونا کے دنوں میں ای لرننگ اور آن لائن ڈیجیٹل تعلیمی پلیٹ فارم کی طرف بڑھنے کے عمل نے اس دھچکے کو کم کرنے میں مدد کی ہے جبکہ قومی تعلیمی نظام میں پہلے سے موجود عدم مساوات کو بھی عیاں کیا ہے۔
زہرہ ارشد نے آن لائن تعلیم کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں براڈ بینڈ تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کے حصول کے مسئلے مزید پیچیدہ ہوئے، خصوصاً ایسے بچوں کے لیے جو مراعات یافتہ پس منظر سے تعلق نہیں رکھتے۔
مزید پڑھیں: حکومت پاکستان نے خصوصی بچوں کی تعلیم کے لیے ایپ لانچ کردی
خواتین کے معاملے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ثقافتی اور سماجی رکاوٹوں نے لڑکیوں اور خواتین کو کسی بھی قسم کی انفارمیشن ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنے سے روک دیا، جس کے باعث ان کی تعلیم متاثر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت کا ٹیلی اسکول قائم کرنے کا اقدام بروقت اور اسمارٹ تھا تاہم منتخب میڈیم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ طلباء کی بڑی آبادی کے پاس ٹیلی ویژن کی سہولت ہی نہیں ہے جبکہ اس وبائی بیماری کے نتیجے میں پڑھنے کے خواہش مند بیشتر بچے اور بچیاں مزدوری یا گھریلو کام کاج پر مجبور ہوگئے۔
پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیٹس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اریبہ شاہد نے اسکول سے باہر لڑکیوں کے بارے میں ایک حالیہ اشاعت کے اعدادوشمار پیش کیے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز (پی آئی پی ایس) کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظفر اللہ خان نے سرکاری نظام تعلیم کے معیار کو بڑھانے پر زور دیا۔
مزید پڑھیں: خیبر پختونخواہ حکومت کا نظامِ تعلیم میں ’گوگل فار ایجوکیشن‘ شامل کرنے کا اعلان
بولو بھی کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی نے کہا کہ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات کا فقدان ہے، دور دراز کے علاقوں کو جدید انٹرنیٹ رابطے کی فراہمی کے لیے یونیورسل سروس فنڈ (یو ایس ایف) کا استعمال کرنا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گورنمنٹ ٹیچرز کو گوگل میٹ اور زوم جیسے پلیٹ فارم استعمال کرنے کے لیے تربیت دینی ہوگی۔