کورونا کے باعث خیبر پختونخوا میں لڑکیوں کی اکثریت تعلیم سے محروم
کورونا کے باعث خیبر پختونخوا میں لڑکیوں کی اکثریت تعلیم سے محروم
گزشتہ موسم گرما میں تقریباً دو ہفتوں تک، صالحہ اور صابرہ رحمان نے اپنے والد کو خیبر پختونخواہ کے ضلع مردان کے ایک ہسپتال میں کووِڈ سے لڑتے دیکھا۔ اس وقت، پاکستان میں وبائی مرض اپنے عروج پر تھا اور یہ لڑکیاں بے بسی کے ساتھ کھڑی تھیں کیونکہ ان کے والد، غنی رحمانی، اس مرض پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے تاہم مئی کے آخر میں وہ بیماری سے لڑتے لڑتے اس نیا سے رخصت ہو گئے۔
رحمان غنی، مردان میں اپنے گاؤں قاضی آباد کے قریب ایک نجی اسکول میں سیکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کررہے تھے۔ وہ اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے اور انہوں نے اپنی دو بیٹیوں کی تعلیم کے لیے ہر ممکن کوشش کی، ان کی یہ دونوں بیٹیاں 12ویں جماعت کی طالبات ہیں جو سوالدھیر کے گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج میں پڑھتی تھیں جبکہ رحمان غنی اپنے دماغی طور پر بیمار بیٹے کا علاج بھی کروارہے تھے۔ اپنے والد کی موت کے بعد، ان بہنوں کو فیصلہ کرنا پڑا کہ آیا وہ اپنے خاندان کو زندہ رہنے میں مدد کے لیے اپنی تعلیم ترک کر دیں۔
پاکستان میں بہت سے سفید پوش خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان پہلے ہی تعلیم کے حصول کے لیے انتہائی نازک حالت میں ہیں۔ پورے ملک میں اسکول کی فیسیں اور کتابوں سمیت دیگر تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے لیے بے حد جدوجہد کی جاتی ہے اور آمدنی میں اتار چڑھاؤ یا ملازمت کا عارضی نقصان بچے کو تعلیم سے دور کرنے کا سبب ہو سکتا ہے۔ ملک میں جاری وبائی بیماری اب ان چیزوں کی طویل فہرست کا حصہ بن گئی ہے جو پاکستان میں بچوں کو اسکول سے دور رکھے ہوئے ہیں کیونکہ کئی خاندان اپنے والدین کے کھو جانے کے بعد زندگی کی آزمائشوں سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر والدین اسکول کی فیس برداشت نہیں کر سکتے تو اس کی سب سے پہلی متاثرین اکثر لڑکیاں بنتی ہیں۔ جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا تو رحمٰن بہنوں نے مل کر اس بارے میں بات کی کہ کون اسکول میں رہے گا اور کون چھوڑے گا تاکہ خاندان کی کفالت میں مدد کی جاسکے۔ پہلے تو وہ دونوں اپنا کالج چھوڑنے پر راضی ہو گئیں لیکن بعد میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ صابرہ اپنی تعلیم جاری رکھے گی اور صالحہ کام شروع کر دے گی۔
صالحہ نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کالج کو الوداع کہنا میرے لیے واقعی ایک بہت مشکل فیصلہ تھا۔ لیکن گھر کے روزمرہ کے اخراجات، بھائی کی دوائیوں اور میری بہن کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ 22 سالہ صالحہ اپنے خاندان کے چار بچوں میں دوسری سب سے بڑی اولاد ہے۔ اس کا 25 سالہ بھائی ذہنی طور پر معذور ہے اور اس کا ایک اور بھائی صرف آٹھ سال کا ہے۔
صالحہ اپنے والد کی جگہ سیکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کرنا چاہتی تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ پشتون ثقافت کسی عورت کو یہ کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کے بجائے اس نے اسی اسکول میں نوکری کی تلاش کی اور اسے پہلی اور دوسری جماعت کے طلباء کو 10,000 روپے ماہانہ میں پڑھانے کے لیے رکھا گیا ہے۔