پرائیویٹ اسٹوڈنٹس کو اعلیٰ تعلیم سے محرومی کا خدشہ

پرائیویٹ اسٹوڈنٹس کو اعلیٰ تعلیم سے محرومی کا خدشہ

پرائیویٹ اسٹوڈنٹس کو اعلیٰ تعلیم سے محرومی کا خدشہ

ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی دو سالہ بیچلرز اور ماسٹرز پروگرام بند کرنے کی نئی پالیسی نے نجی طلبہ کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے جنہیں چار سالہ بی ایس ڈگری کے لیے داخلہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔

بی اے، بی ایس سی، ایم اے اور ایم ایس سی ڈگری پروگراموں کو منسوخ کرنے کے فیصلے سے ایسے افراد جو امتحانات میں نجی امیدوار کی حیثیت سے شامل ہوئے یا مختلف شعبوں میں ملازمت کے ساتھ ساتھ مزید تعلیم جاری رکھنے کے خواہشمند ہیں ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد متاثر ہوگی۔

کمیشن نے طلباء اور والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سرکاری یا نجی کالجوں یا اداروں میں داخلہ لینے سے گریز کریں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ دو سالہ بیچلر اور ماسٹر ڈگری پروگرام پیش کرتے ہیں۔

ایچ ای سی کی جانب سے اس کے متبادل کے طور پر صرف چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام متعارف کروایا گیا ہے جو مستقبل میں قابل قبول سمجھا جائے گا۔

یہ اسکیم تعلیم کے بین الاقوامی معیار کی تکمیل کے لیے اختیار کی گئی ہے لیکن یہ صرف ریگولر طلبہ کے لیے دستیاب ہوگی۔ تاہم، اس فیصلے سے نجی امیدواروں کے لیے زیادہ پریشان کُن صورتحال پیدا ہوگی۔

مزید پڑھیں: پشاور یونیورسٹی کا بڑا فیصلہ

یہ پالیسی حکومت کے تحت چلنے والے انسٹیٹیوٹس کے ساتھ ساتھ نجی تعلیمی اداروں میں بھی متعارف کروائی گئی ہے جو پنجاب حکومت ، ایچ ای سی اور محکمہ اعلی تعلیم کے ذریعہ رجسٹرڈ اور منظور شدہ ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پنجاب کی 30 سرکاری یونیورسٹیوں میں تقریباً 300،000 نجی امیدوار سالانہ بیچلرز پروگراموں میں داخلہ حاصل کرتے تھے۔ ان میں سے بیشتر یا تو باقاعدہ پروگرام میں داخلے کی اجازت کی حد سے زیادہ ہیں یا تعلیمی سطح کی وجہ سے کل وقتی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح، دو سالہ ماسٹرز پروگرام کے امتحانات میں تقریبا 200،000 نجی امیدوار شریک ہوئے۔

 دو سالہ بی اے اور بی ایس سی ڈگری حاصل کرنے والے باقاعدہ اور نجی طلباء کی کل تعداد کا تخمینہ لگ بھگ 600،000 ایم اے اور ایم ایس سی 800،000 لگایا گیا۔

ایچ ای سی کے ذریعے اب بیشتر پرائیویٹ طلباء اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے محروم ہوگئے ہیں۔ داخلے کے لیے مقررہ عمر سے زیادہ عمر کے افراد اور باقاعدہ تعلیم کے لیے وقت نہ ملنے کے علاوہ ، اس فیصلے سے خواتین کی بڑی تعداد پر بھی سخت اثر پڑے گا۔

روزانہ تعلیمی اداروں میں آنے جانے کے قابل نہ ہونے یا گھریلو وجوہات کی بنا پر نجی امتحانات کے نظام سے خواتین کی ایک بڑی تعداد مستفید ہوئی۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد نے شادی کے بعد نجی امیدوار کی حیثیت سے اپنی تعلیم دوبارہ شروع کی۔

صوبائی دارالحکومت کی رہائشی شمسہ بتول نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایچ ای سی کو دو سالہ ڈگری پروگرام ختم نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجی امیدواروں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مواقع میں اضافہ کیا جانا چاہیے جس سے خواتین اور پروفیشنل افراد کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ان کے لیے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوگا اور تعلیم کے فروغ میں بھی مدد ملے گی۔

ایک طالب علم نے کہا کہ سیمسٹر سسٹم کے تحت بڑے پیمانے پر چار سال کے پروگرامز کے لیے ملک میں دستیاب وسائل اور حالات قطعی موزوں نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: وزارت تعلیم نے پاکستانی طلبا کے لیے تمام اسکالر شپس کے ویب لنکس شیئر کردیئے

جب پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر خالد خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ تمام یونیورسٹیوں کو ایچ ای سی کے فیصلے پر عمل درآمد کرنا تھا حالانکہ دو سالہ پروگرامز کے خاتمے سے اداروں کو مالی نقصان ہوسکتا ہے۔

تاہم ایچ ای سی پاکستان اس سال سے بی ایس آنرز کے چار سالہ پروگرام کو مکمل طور پر منظور شدہ انڈرگریجویٹ ڈگری کے طور پر متعارف کرانے کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے آگے بڑھا ہے جبکہ والدین اور اساتذہ نے بھی اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

سامعہ اکرام نے کہا کہ یہ عمل باصلاحیت افراد کی ایک بڑی تعداد کو اعلیٰ تعلیم کے حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔

ایچ ای سی کے فیصلے کے تحت صرف وہ امیدوار جو سرکاری یا منظور شدہ اداروں میں داخلہ لے چکے ہیں اب وہ چار سالہ بی ایس پروگرام کے اہل ہوں گے۔ انہیں کم از کم 80 فیصد حاضری برقرار رکھنی ہوگی اور کریڈٹ اوقات مکمل کرنا ہوں گے جبکہ داخلے کے لیے عمر کی حد بھی ہوگی۔

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو