یونیورسٹیز کو پیش کیے گئے 50 فیصد ایم ایس، پی ایچ ڈی تھیسز سرقے کا شکار
یونیورسٹیز کو پیش کیے گئے 50 فیصد ایم ایس، پی ایچ ڈی تھیسز سرقے کا شکار
ملک میں بے روزگار مگر پڑھے لکھے لوگوں نے ایم ایس اور پی ایچ ڈی کی ڈگری ھاصل کرنے کے لیے جعل سازی اور سرقہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ دوسرے طلباء اور لیکچررز کے لیے تحقیقی مقالے، جنہوں نے انہیں پوری دنیا کے بین الاقوامی جرائد میں شائع کیا ہے ان میں نصف سے زائد سرقے پر مشتمل تھے۔ یونیورسٹیز کی انتظامیہ کے مطابق یونیورسٹیوں کو پیش کیے گئے ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے تھیسز (مقالہ جات) میں پچاس فیصد تک سرقہ یعنی پلیجرازم پایا گیا ہے۔
یہ بات یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس) کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے ایک مقامی نیوز چینل کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں کہی۔
پروفیسر جاوید اکرم کا دعویٰ ہے کہ گھوسٹ ایم ایس اور پی ایچ ڈی بنانے کا کاروبار، تحقیقی کام کے نام پر ملک میں بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے اور یہ کام بے روزگار مگر پڑھے لکھے لوگ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کم از کم 25 ہزار روپے کے لیے کوئی بھی جعلی تھیسز، تحقیقی مقالوں اور ریسرچ پیپرز پر ہاتھ ڈال سکتا ہے اور جنوبی پنجاب ایسی کارروائیوں کا گڑھ بن چکا ہے، جن میں سے اکثریت ڈی جی خان اور راجن پور میں مقیم ہے۔
پروفیسر جاوید اکرم کے مطابق، جعلی تحقیقی مقالے اور تھیسز مختلف اداروں کی طرف سے ان کی درستگی کی تصدیق کے لیے ٹھوس عمل کی کمی کی وجہ سے باآسانی آتھورائزڈ ہوجاتے ہیں، جعلی کام سرکاری اداروں کے منظور شدہ کام کا 30 فیصد اور نجی یونیورسٹیوں کے منظور شدہ کام کا 50 فیصد ہے۔
انہوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) پر زور دیا کہ وہ اس جعل سازی کو روکنے کے لیے فوری ایکشن لے، جس سے تعلیمی دنیا میں ملک کی ساکھ مجروح ہورہی ہے