ڈنمارک میں حجاب پر پابندی کی تجویز پر تنقید اور شدید احتجاج

 ڈنمارک میں حجاب پر پابندی کی تجویز پر تنقید اور شدید احتجاج

 ڈنمارک میں حجاب پر پابندی کی تجویز پر تنقید اور شدید احتجاج

ڈنمارک کی حکمران جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے تشکیل دیا گیا کمیشن برائے فارگاٹن ویمنز اسٹرگل نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ ایلیمنٹری اسکولوں میں طالبات کے حجاب پر پابندی عائد کی جائے جس کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ماہ دی گئی یہ تجویز ان 9 سفارشات میں سے ایک ہے جن کا مقصد اقلیتی پس منظر سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے ’عزت سے متعلق سماجی کنٹرول‘ کو روکنا ہے۔

اسکارف پر پابندی کی تجویز نے ڈنمارک میں سخت ردعمل کو جنم دیا ہے جہاں خواتین سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔

آرہس یونیورسٹی کے ڈینش اسکول آف ایجوکیشن کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ارم خواجہ نے اس تجویز کے خلاف آواز بلند کی ہے، جن کی تحقیق اس بات پر مرکوز ہے کہ مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے بچے ڈنمارک کے معاشرے میں کس طرح گھومتے پھرتے ہیں۔

ارم خواجہ کے مطابق اسکارف پر پابندی سے ان لڑکیوں کو درپیش مسائل حل نہیں ہوں گے جو سماجی کنٹرول کے تابع ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے برعکس یہ پابندی بڑے مسائل کو جنم دے گی کیونکہ وہ لڑکیاں جو پہلے ہی منفی سماجی کنٹرول کا شکار ہیں، اب انہیں مزید دباؤ کا سامنا کرنا ہوگا۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، ایلمنٹری اسکولوں میں اسکارف کا استعمال بچوں کو دو گروپوں 'ہم' اور 'وہ' میں تقسیم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ مطالعہ ڈنمارک کی وزارت تعلیم کی جانب سے تحقیقی کمپنیوں نے کیا تھا جو 19 ایلیمنٹری اسکولوں اور 8 آزاد اور نجی اسکولوں کے چھٹی سے آٹھویں جماعت کے ایک ہزار 441 طلبہ کے سروے کے ساتھ ساتھ 22 طلبہ کےانٹرویوز اور 17 اساتذہ کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔

لگ بھگ 700 طلبہ پر مشتمل جٹ لینڈ کے ایک ایلیمنٹری اسکول ٹِلسٹ اسکول کے پرنسپل لون جورگنسن نے بھی تجویز کردہ اس پابندی کی حمایت نہیں کی۔

پرنسپل کا کہنا تھا کہ ایسی پابندی بچوں اور ان کے والدین کے درمیان ایک قانون بنائے گی اور بچے درمیان میں پھنس جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میرا کام سب کے لیے ایک اچھا اسکول چلانا ہے، جہاں سب کے لیے جگہ ہو اور سب کی قدر ہو۔

 دوسری جانب عوامی مظاہروں میں کہا جارہا ہے کہ حجاب پر پابندی کی تجویز ختم کی جائے۔ اس تجویز کے خلاف ہزاروں لوگ کوپن ہیگن کی سڑکوں پر نکلے، جن میں زیادہ تر خواتین تھیں اور ان کا مطالبہ تھا کہ اس پابندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ڈنمارک کے معاشرے میں حجاب پہننے والی مسلم خواتین ہر جگہ موجود ہیں، وہ ڈاکٹر، ماہر نفسیات، بس ڈرائیور اور فنکارہ بھی ہیں اور وہ سب ’ڈنمارک کا حصہ‘ ہیں۔

مظاہرین نے مزید کہا کہ ان کی بچیوں نے خوشی اور رضامندی کے ساتھ حجاب پہن رکھا ہے، حجاب دل کا معاملہ ہے اور اسے کسی بھی صورت سیاسی بحث میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے اور یہ پابندی بچیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ اسکارف پر پابندی کی تجویز پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں اسکولوں کی طالبات اسکارف اتارنے پر مجبور ہو جائیں گی۔

 

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو