بھارت میں حجاب پر پابندی، مسلمان طالبات مذہب اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور
بھارت میں حجاب پر پابندی، مسلمان طالبات مذہب اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور
جنوبی کرناٹک کے ضلع اڈوپی سے تعلق رکھنے والی 21 سالہ بھارتی مسلمان طالبہ عائشہ امتیاز کا کہنا ہے کہ ان کے کالج کا حجاب پہننے والی طالبات پر پابندی لگانے کا فیصلہ ایک توہین پر مبنی عمل ہے جو مسلمان طالبات کو مذہب اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ادارہ جسے میں نے تعلیم کا مرکز سمجھا تھا اس نے میرے مذہب پر سوالیہ نشان لگا کر نہ صرف مذہب کی توہین کی ہے بلکہ تعلیم سب کے لیے کے حق کی بھی توہین کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی دوسری مسلمان لڑکیوں کو دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوئی تھیں اور انہیں گھروں کے اندر ہی رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔
مزید پڑھئیے: پنجاب حکومت کا اسکولوں کے طلباء کے لیے مفت لنچ پروگرام متعارف
کالج کے منتظمین کے مطابق، طلباء کو کیمپس میں حجاب پہننے کی اجازت ہے، لیکن انہیں کلاس روم میں جا کر اسے ہٹا دینا چاہیے۔
اس تعطل کے نتیجے میں بھارت کے اقلیتی مسلمان خوفزدہ اور مشتعل ہو گئے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ ملک کا آئین انہیں جو چاہے پہننے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔
اس مہینے کولکتہ اور چنائی میں سیکڑوں لوگوں نے مسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی کے خلاف مظاہرہ کیا اور خواتین کے تعلیم کے حق میں نعرے بازی کی۔
حجاب پر پابندی کے خلاف درخواست کی اپیل کرنے والے درخواست گزاروں کو گزشتہ ہفتے ریاست کی ہائی کورٹ کے ایک جج نے ایک بڑے پینل کے پاس بھیجا تھا۔ تاہم، اس کیس کو دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر بھارتی آئین کے مذہبی آزادی کے تحفظ کے امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔