حبیب یونیورسٹی میں پوسٹ کالونیل ہائر ایجوکیشن کانفرنس کا انعقاد

حبیب یونیورسٹی میں پوسٹ کالونیل ہائر ایجوکیشن کانفرنس کا انعقاد

حبیب یونیورسٹی میں پوسٹ کالونیل ہائر ایجوکیشن کانفرنس کا انعقاد

نوآبادیاتی دنیا کے بعد کے ہمارے تجربے سے اجتماعی علحیدگی نے انسانوں کو اپنی ہی حقیقت سے دور ہونے پر مجبور کردیا، انہیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا اور اب انسانوں کے لیے آگے جانے والے راستے میں انسانی معرفت کی اصلاح بھی شامل ہونی چاہیے۔

ان خیالات کا اظہار مقررین نے اتوار کے روز حبیب یونیورسٹی کے زیر اہتمام چوتھی پوسٹ کالونیل ہائر ایجوکیشن کانفرنس کے اختتامی اجلاس 'ریپریٹو اینڈز' میں کیا۔

اختتامی اجلاس میں کانفرنس کے چیئرپرسن اور اس کانفرنس کا مرکزی تصور پیش کرنے والے ڈاکٹر نعمان نقوی اور تاریخ دان ڈاکٹر سجاد رضوی شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت ایچ یو کے صدر واصف رضوی نے کی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں تمام آن کیمپس سرگرمیوں پر پابندی عائد

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سجاد رضوی نے کہا کہ اس سیشن کا مقصد بار بار اٹھائے گئے سوالات، لاحاصل انسانی سرگرمیوں کے مقاصد اور ہر جگہ انسانی مداخلت کے باعث پیدا ہونے والے  تباہ کن نقصانات کے حوالے سے سوالوں کے جواب کو اجاگر کرنا تھا۔

ڈاکٹر نعمان نقوی جو حبیب یونیورسٹی میں کمپیئریٹو ہیومینٹیز پروگرام کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں   نے ریپئرنگ کوگنیشن، دا اینڈز آف ایکسپیریئنس سے متعلق اپنا مقالہ پڑھا۔

انہوں نے کہا کہ استعمار نے انسانی ادراک و آگہی کو مکمل طور پر نقصان پہنچایا ہے۔ پروفیسر نعمان نقوی نے مریخ پر نوآبادیات استوار کرنے کے خیال کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ لوگ واضح طور پر رہنے کے قابل سیارے پر آباد ہونا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارا گزشتہ تجربہ سراسر الجھاؤ کا شکار نہ ہوا ہوتا تو یہ بات قطعی طور پر واضح ہوجاتی کہ زمین پر جتنی بھی خراب چیزیں آگئی ہیں ، وہ اب بھی مریخ کے ناروا منظر کی نسبت کچھ بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قطعیت اور احساسات کا ادراک کے بغیر ہم کسی مناسب انجام تک نہیں پہنچ سکتے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: یو ایچ ایس لاہور کی بندش میں 11 اپریل تک توسیع کردی گئی

پروفیسر سجاد رضوی جو ایکسیٹر یونیورسٹی میں اسلامی اور دانشورانہ تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، نے مسیحا کے ساتھ مستقبل اور الہیات پرستی کے تصور کو پیش کیا، انہوں نے نوٹس کیا کہ اگر انسانوں کو مردم خوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں اس نظریے کو ریپیئر کرنے کی ضرورت تھی کہ وہ مسیحیت کو کس طرح سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسلام کا بیانیہ ہے جسے ہم بھول گئے ہیں۔ اگر ہم اس بیانیہ کو ٹھیک نہیں کرتے اور اگر آپ اس وژن اور خواب دیکھنے کی صلاحیت کی اصلاح نہیں کرتے ہیں اور اگر آپ کسی بہتر مستقبل کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں تو  آپ اس کے بارے میں نہیں سوچ سکتے۔

تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں ©️ 2021 کیمپس گرو