عدالت نے 37 گرفتار اسٹوڈنٹس کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا
عدالت نے 37 گرفتار اسٹوڈنٹس کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا
بدھ کے روز لاہور کی ایک عدالت نے سینٹرل پنجاب یونیورسٹی کے باہر کیمپس کے امتحانات کے خلاف احتجاج کرنے پر 37 طلبا کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
طلباء اور ان کے والدین کی ایک بڑی تعداد نے ماڈل ٹاؤن میں جمع ہو کر گرفتار مظاہرین سے اظہار یکجہتی کیا۔ تاہم انہیں کمرہ عدالت کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
گرفتار طلبہ کو پولیس وین میں عدالت کے احاطے میں لایا گیا، تاہم انہیں عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا گیا اور ان کی عدم موجودگی میں ہی کیس کی کارروائی شروع کردی گئی۔
مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا کی تعلیم کو دوبارہ معمول پر لانے کی کاوشیں
گرفتار مظاہرین کے وکیل نے ملزمان کی ضمانت کے لیے استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔ جج نے استغاثہ کی جانب سے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کے مطالبہ کی درخواست پر ہنگامہ آرائی کے الزامات کا سامنا کرنے والے طلبا کو پولیس کے حوالے کردیا۔
اس موقع پر موجود طلباء اور ان کے حامیوں نے پولیس اور یو سی پی انتظامیہ پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ نہتے طلبا پر حملے میں ملوث سیکورٹی گارڈز کو بغیر کسی کارروائی کے چھوڑ دیا گیا ہے۔ انہوں نے حکام کے خلاف مقدمات کے اندراج اور گرفتار طلبہ کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ پرامن احتجاج ان کا حق ہے۔
لاہور پولیس نے کم از کم 94 نامزد طلبہ اور سیکڑوں نامعلوم افراد کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 452 ، 506 بی ، 148 ، 149 ، 427 ، 342 ، 290 ، 291 ، 440 ، 436 ، 269 اور 270 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ قانون کی دفعہ 16 ایم پی او،
پولیس نے ایف آئی آر میں الزام لگایا کہ طلبا نے یونیورسٹی پر حملہ کیا اور اس کی املاک کو نقصان پہنچایا۔
منگل کو طلباء کی ایک بڑی تعداد سینٹرل پنجاب یونیورسٹی کے جوہر ٹاؤن کیمپس کے باہر جمع ہوئی تھی تاکہ آن لائن امتحانات کا مطالبہ کیا جا سکے۔
آن لائن امتحانات کے لیے بڑے پیمانے پر ہونے والا احتجاج پُرامن رہا سوائے تشدد کے ایک واقعے کے جس میں یو سی پی کے مسلح گارڈز نے طلبہ کو یونیورسٹی کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش پر تشدد کا نشانہ بنایا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یو سی پی کے گارڈز کے لاٹھی چارج اور تشدد کی وجہ سے شاہ جہاں نامی ایک طالب علم شدید زخمی ہوگیا تھا اور اسے جناح اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ مظاہرے کے دوران کچھ دیگر طلباء کو بھی چوٹیں آئیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا تھا کہ کچھ طلباء نے تشدد کا سہارا لیا، یونیورسٹی کے گیٹ کو نذر آتش کیا اور املاک کو نقصان پہنچایا۔
مزید پڑھیں: پنجاب کی وزارت تعلیم نے عملے کو ویکسینیشن ڈیوٹی سے روک دیا
ویٹرنری یونیورسٹی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، یونیورسٹی آف سائوتھ ایشیا، فاسٹ اور صوبہ بھر کی دیگر یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلباء نے کیمپس کے امتحانات کے خلاف احتجاج کیا۔
دو روز قبل ہی یونیورسٹی آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ایم ٹی) کے طلباء کی ایک بڑی تعداد نے بھی اسی مطالبے کے حق میں احتجاج کیا تھا، تاہم انہوں نے اپنے مطالبات پورے ہونے کے بعد دھرنا ختم کردیا۔ اسی دن ڈی جی خان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں غازی یونیورسٹی کے ہزاروں طلباء نے بھی کیمپس کے امتحانات کے خلاف احتجاج کیا تھا جس کے بعد ان کے مطالبات کو بھی مان لیا گیا۔
دوسری جانب ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے جامعات کے وائس چانسلرز سے مشاورت کے بعد اعلان کیا ہے کہ اگر تیاری مکمل ہے تو یونیورسٹیاں آن لائن امتحانات کا انتخاب کرسکتی ہیں۔