بلوچستان ہائیکورٹ کا سرکاری ملازمین کو دھرنا ختم کرنے کا حکم
بلوچستان ہائیکورٹ کا سرکاری ملازمین کو دھرنا ختم کرنے کا حکم
جمعے کے روز بلوچستان ہائیکورٹ نے آل بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے ارکان کو فوری طور پر اپنا دھرنا ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے حکومت کو احتجاج کرنے والے سرکاری ملازمین سے بامقصد مذاکرات کرنے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا حکم دیا۔
بی ایچ سی کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس کامران ملاخیل کی سربراہی میں دو رکنی ڈویژنل بنچ نے غیر ترقیاتی شعبے میں کٹوتی عائد کرنے اور محصولات (ریونیو) میں اضافے کا بھی حکم دیا۔ ایڈوکیٹ جنرل ارباب طاہر کاسی، سیکریٹری خزانہ ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور کمشنر کوئٹہ گذشتہ دو ہفتوں سے جاری دھرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے لیے عدالت میں پیش ہوئے، یہ درخواستیں ایڈووکیٹ منیر کاکڑ اور دیگر افراد کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔
مزید پڑھیئے: سی اے آئی ای کی امتحانی پالیسی میں ابھی بہت کچھ غیرواضح ہے
سماعت کے دوران بی ایچ سی کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ جو اساتذہ میٹرک کے امتحانات کا بائیکاٹ ختم نہیں کرتے، انہیں نوکریوں سے برطرف کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی بھی بچے کا کوئی پرچہ منسوخ ہوتا ہے تو اساتذہ جیل جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ایک ہی گریڈ کے سرکاری ملازمین میں تفریق کرکے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ سیکرٹریٹ میں بہت سی نئی گاڑیاں ہیں اور حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ جب تین ماہ سے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں تو وزیر اعلیٰ نے چار نئی گاڑیاں کیوں خریدیں؟ انہوں نے کہا کہ اگر یونیورسٹی کی فیسوں میں اضافہ کیا گیا تو اس پر شور ہوگا۔
مزید پڑھیئے: پاکستانی اسٹارٹ اپ نے پری سیڈ فنڈنگ کی مد میں 3لاکھ 20 ہزار ڈالرزجمع کرلیے
حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس بی ایچ سی نے سوال کیا کہ کیا وزراء اور سکریٹریز کے گھروں میں اضافی گاڑیاں ہیں؟ انہوں نے استفسار کیا کہ ان کے گھر میں کتنی گاڑیاں ہیں اور ان کی قیمت کتنی ہے؟ انہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت غیر ضروری پراپرٹی فروخت کرکے بہت ساری پریشانیوں کو دور کرسکتی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والے ملازمین حکومت کے بچے ہیں، ایک ہی گریڈ سے تعلق رکھنے والے افسران کی تنخواہیں ایک جیسی ہونی چاہئیں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملازمین سے بات چیت کے لیے 30 مارچ کو صوبائی وزرا اور دیگر عہدیداروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں فنانس، تعلیم اور سیکریٹری برائے قانون شامل ہیں، مظاہرین سے بات چیت کر رہے ہیں۔
مظاہرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کمیٹی نے 18 نکات کی منظوری دے دی ہے۔
مزید پڑھیئے: 2 سالہ بی اے، بی کام غیر مستند قرار، طلبہ داخلے نہ لیں، محکمہ ایجوکیشن سندھ
ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ ابھی تک ملازمین کے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
اس عمل کے لیے کمیٹی اور گرینڈ الائنس کے درمیان ایک اجلاس ضروری ہے جسے ریکارڈ پر لایا جائے گا۔ انہوں نے گرینڈ الائنس سے دھرنا ختم کرنے کی درخواست کی اور عدالت سے معاملات حل کرنے کے لیے سب کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے کی اپیل کی۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے اس سلسلے میں عدالت کو چیف سیکریٹری اور وزیراعلیٰ جام کمال سے ملاقات کی یقین دہانی کرائی۔
انہوں نے کہا کہ صوبے کے قانون اور مالی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔
بی ایچ سی کے چیف جسٹس نے کہا انہیں توقع ہے کہ حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فنڈز کی دستیابی کو یقینی بنائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت غیر منقولہ فنڈز نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ محصولات میں اضافے کے لیے اقدامات بھی کرسکتی ہے۔
عدالت نے اگلی سماعت پر ایڈووکیٹ جنرل کو اس معاملے پر ہونے والی پیشرفت کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے کمیٹی کو پنشنرز ایسوسی ایشن کے مطالبات حل کرنے کی ہدایت بھی کی