صوبائی حکومت کی نا اہلی کے باعث ہزاروں طلباء کا تعلیمی سال ضائع
صوبائی حکومت کی نا اہلی کے باعث ہزاروں طلباء کا تعلیمی سال ضائع
کراچی سے مختلف مضامین میں انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے خواہشمند ہزاروں طلباء کا تعلیمی سال ضائع ہوگیا ہے اور حکومت سندھ کی مبینہ نااہلی کی وجہ سے ان کا اعلیٰ تعلیم کے لیے سفر معطل ہوگیا ہے۔
گذشتہ سال سندھ حکومت نے ان طلبا کو پروموشن پالیسی کے تحت انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کی اجازت نہیں دی تھی اور نہ ہی اس نے ان کے امتحانات لئے تھے۔
وہ طلباء جو سائنس کے شعبے سے کامرس یا آرٹس کی طرف آئے تھے، یا وہ بچے جو دوسرے بورڈز اور کیمبرج سسٹم سے ہجرت کرچکے تھے اور جن بچوں نے امتحانات میں بیٹھنے کے آخری موقع کی اجازت طلب کی تھی، انہیں پروموشن پالیسی میں نظر انداز کردیا گیا، جس کے نتیجے میں ان اسٹوڈنٹس کا تعلیمی سال ضائع ہوگیا۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ، پاکستان میں امتحانات ملتوی کرنے کا مطالبہ
بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی ان طلباء کی ترقی کے لیے کئی مہینوں سے اجازت مانگ رہا ہے، جیسے ہزاروں دوسرے طلباء کو پروموشن پالیسی کے تحت ترقی دی گئی تھی لیکن حکومت سندھ اور متعلقہ محکمہ، سندھ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈیپارٹمنٹ اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کررہے۔ اس صورتحال نے ایک خطرہ پیدا کیا ہے کہ ان طلباء کا مزید وقت ضائع ہوسکتا ہے۔
بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی سے وابستہ ذرائع کے مطابق چار مختلف کیٹیگریز سے تعلق رکھنے والے ان طلبا کی تعداد 7،000 کے لگ بھگ ہے۔ ان کیٹگریز میں ٹی پی کمبائنڈ، انٹرمیڈیٹ پارٹ ون اور ٹو کے12 پیپرز، ایڈوانس اور شارٹ سجیکٹ جیسے اے لیول کے طلباء اور مختلف اداروں سے امتحانات پاس کرنے والے دیگر اسٹوڈنٹس، خصوصی اور آخری مواقع والے طلباء اور لازمی مضامین کا فائدہ حاصل کرنے والے طلباء شامل ہیں۔
حکام نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ پچھلے سال جب محکمہ اسکول اینڈ کالج ایجوکیشن اور یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈیپارٹمنٹ نے مشترکہ طور پر میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طالب علموں کے لئے پروموشن پالیسی بنانے کے لیے مختلف تعلیمی بورڈز کے چیئرپرسن کے ساتھ مل کر کام کیا تھا مگر ان چاروں زمروں میں طلباء کو نظرانداز کردیا گیا تھا۔
یہ مسودہ سندھ اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد قانون بن گیا اور میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح کے ہزاروں طلبا کو اس کی بنیاد پر اگلی کلاسوں میں ترقی دے دی گئی۔ تاہم مذکورہ اقسام کے طلبہ اس پالیسی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے اور ان کا قیمتی سال ضائع ہو گیا۔ بعد میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان طلبہ کے لیے خصوصی امتحانات ہوں گے جو امتحان میں شریک نہیں ہوسکتے تھے یا ان کے نتائج سے مطمئن نہیں تھے اور چار زمروں کے طلبا کو یقین دلایا گیا تھا کہ وہ خصوصی امتحان میں حصہ لینے کے قابل ہوں گے جو کچھ دن میں منعقد کیا جائے گا۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی نے ان ہزاروں طلباء سے امتحانی فارم اور فیس وصول کی، لیکن کورونا وائرس کی دوسری لہر کی وجہ سے امتحانات کا انعقاد نہیں ہوسکا۔
یہ انکشاف ہوا ہے کہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کی انتظامیہ اس معاملے کو چند ماہ قبل اپنے بورڈ آف گورنرز کے پاس لے گئی تھی، جہاں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ وہ یہ معاملہ متعلقہ اتھارٹی کے سامنے رکھے اور ان طلباء کے لیے امتحانات منعقد کروانے یا ہزاروں دیگر طلباء کی طرح ان کے پچھلے تعلیمی نتائج میں تین فیصد اضافی نمبر دے کر ان کی ترقی کی درخواست کرے۔
اس کے بعد بورڈ آف انٹرمیڈیٹ نے نو فروری کو محکمہ بورڈ اینڈ یونیورسٹیز کے سیکریٹری علم الدین بلو کو ایک خط لکھا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ امتحانات منعقد کرنے یا پروموشن پالیسی پر عمل درآمد کے لیے ہدایت نامہ کا مطالبہ کیا جائے۔ تاہم، اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ علم الدین بلو کبھی دفتر نہیں آتے مگر فائلیں اور کیسز ان کے گھر بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس معاملے کی فائل تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل بلو کے گھر بھیجی گئی تھی لیکن انہوں نے اس پر غور کرنے کے بجائے اس معاملے کو وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نثار کھوڑو کے پاس بھجوا دیا۔ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ نثار کھوڑو امریکہ کے دورے پر ملک سے باہر ہیں، اس معاملے کو مزید لٹکا دیا گیا۔ دوسری جانب جن طلبا کو ترقیاتی پالیسی کے تحت اگلی کلاسوں میں ترقی دی گئی تھی وہ اب تک کالجوں اور یونیورسٹیوں میں شامل ہوچکے ہیں جبکہ یہ 7000 طلباء ابھی بھی امتحانات یا ترقی کے منتظر ہیں۔
مزید پڑھیں: اپنے سائنس ہوم ورک کے لیے ڈیجیٹل البرٹ آئن اسٹائن سے مدد لیں
اس معاملے پر ان کا موقف جاننے کے لیے جب ان سے رابطہ کیا گیا تو علم الدین بلو نے فون کالز اور پیغامات کے جوابات دینے سے گریز کیا۔
ایک متاثرہ طالبہ کے مطابق، جس نے سائنس سے کامرس میں اساتذہ کی تبدیلی کی درخواست جمع کرائی تھی، اس کی فائل دستخط کے لیے بالکل تیار تھی، لیکن کووڈ لاک ڈاؤن کے اعلان کی وجہ سے وہ کمرا نمبر 52 سے 10 اے تک نہیں جا سکی۔ انہوں نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ انرولمنٹ فارم داخل کرنے کی آخری تاریخ سے ایک دن پہلے اس پر دستخط کرنے اور جمع کروانے کے لیے انہیں اپنی والدہ کو ساتھ لے کر بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑی مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔