اسکول واپس جانے کی ایزائٹی کہ حوالے سے والدین کیلئے چند تدابیر
اسکول واپس جانے کی ایزائٹی کہ حوالے سے والدین کیلئے چند تدابیر
سرکاری اعلان کے مطابق ستمبر کے پہلے ہفتے میں کورونا وائرس کے باعث ہونے والا اسکولوں کا لاک ڈاؤن ختم ہونے کی توقع ہے۔ اس سے اگرچہ بہت سے طلباء خوش ہوں گے لیکن کچھ بچوں کو اسکول واپس جانے کے امکان کے بارے میں سماجی اضطراب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس معاشرتی اضطراب کو اسکول کی توقعات سے جوڑا جاسکتا ہے اور حالات کے پیش نظر طلبا کے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کا خوف پہلے سے مختلف ہوگا۔
بچوں کی ہم بات کریں تو ان کے لیے اس عمل سے وابستہ اور خوش ہونے کے بجائے وبائی امراض کے باعث اتنے دنوں تک لاک ڈائون میں رہنے کے بعد لوگوں کا سامنا کرنے کی فکر سے بھی جوڑا جاسکتا ہے۔ اسکول واپس جانے کا خیال طلباء کو ایک طرح کے نفسیاتی خوف میں بھی مبتلا کر سکتا ہے۔ دل کی تیز رفتار دھڑکن، چھپے ہوئے جوش و خروش اور نفسیاتی خوف کی وجہ سے خون اور دماغ میں آکسیجن کا زیادہ بہاؤ بچے کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے، اس صورتحال میں وہ ٹھیک سے سنبھل نہیں پائے گا جس سے اس کی کارکردگی بہت زیادہ متاثر ہوسکتی ہے۔
معاشرتی اضطراب خوفناک ہے لیکن یہ خطرناک یا جان لیوا نہیں ہے لہٰذا یہ علامات جو بچوں میں یہ سننے کے بعد پیش آسکتی ہیں کہ شاید وہ بہت جلد اسکول واپس جائیں، احمقانہ حرکتیں کرنا، بے تحاشا ہنسنا یا گھر میں چیخنے چلانے کو ان کا اندرونی اضطراب طاہر کرتی ہیں۔ اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے اقوام متحدہ کا مشورہ ہے کہ آپ اس سے فکر پیدا کرنے والی چیزوں کے بارے میں کھل کر گفتگو کریں اور اسے یہ بتائیں کہ اسے یہ پریشانی محسوس ہونا ایک فطری عمل ہے۔
کورونا وائرس کے بعد سے ہونے والے لاک ڈائون میں بچے گھروں میں ہیں اور کئی ماہ سے، اپنی رفتار سے سیکھ رہے ہیں۔ کچھ طلباء نے اپنے معمولات پر مفاہمت کرلی ہے اور وہ اسکول واپس جانے اور پچھلے طریقہ کار پر دوبارہ عمل پیرا ہونے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے۔ تاہم ماہر نفسیات کورونا وائرس کے بعد بچوں میں پیدا ہونے والے معاشرتی اضطراب پر قابو پانے کے لیے کچھ حکمت عملیاں تجویز کرتے ہیں۔
انہیں پرسکون کریں:
بچے اپنے گھروں میں ایک پُرسکون ماحول میں رہ چکے ہیں اور اپنے خول میں ٹھیک محسوس کررہے ہیں۔ اس مقام پر انھیں یہ احساس نہیں ہے کہ ان کے جسم میں تناؤ ہے۔ اگر والدین پرسکون حکمت عملی جیسے کچھ ذہنی اور سانس لینے کی مشقیں استعمال کرسکتے ہیں تو اس سے ان کی افسردگی، سستی اور الجھن پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ کچھ موبائل ایپلی کیشنز جیسے اسمائلنگ مائنڈ (آئی او ایس اور اینڈرائیڈ) یا بریتھنگ ببلز (صرف اینڈرائیڈ) آپ کی سانس کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتی ہیں۔
سماجی کامیابی کے چھوٹے چھوٹے تجربات:
بہت سے لوگ اضطراب پر قابو پانے کے لیے اجتناب کی تکنیک استعمال کرتے ہیں جس سے اس کے امکانات دس گنا بڑھ جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر بہت سارے طلباء کسی سوال کا جواب دینے کے لیے ہاتھ اٹھانے سے گریز کرتے ہیں یا کسی بھی سماجی صورتحال میں نہ آنے کے لیے اسکول جانے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے یہ طلباء پریشانی کو اپنے اندر زیادہ گہرا بنالیتے ہیں جس سے ان کا اعتماد کھونے لگتا ہے اور وہ مستقل پریشان رہنے لگتے ہیں جبکہ اس پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا سامنا کیا جائے۔۔
اس مرحلے پر، والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو معاشرتی کامیابی کے چھوٹے چھوٹے تجربات میں شامل ہونے کی ترغیب دیں۔ کسی ایک شخص کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بانٹیں، انہیں کسی کے ساتھ بات چیت کرنے دیں جس کو وہ جانتے ہیں، لہٰذا آہستہ آہستہ وہ معاشرتی میل جول میں خود کو محفوظ محسوس کرنا سیکھ سکتے ہیں۔
مغلوب ہونا ٹھیک ہے:
ہوسکتا ہے کہ آپ کا بچہ جسمانی اور ذہنی تناؤ سے گزر رہا ہو اور ممکن ہے کہ وہ آپ کے سامنے اس کا اظہار نہ کرپائے۔ دوسری جانب کچھ والدین بےچینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا اس کا اظہار خود نہ کرتے ہوئے پریشان ہوجاتے ہیں۔
اس صورتحال میں اپنے بچے کو یہ یقین دلانا کہ یہ زبردست صورتحال معمول کی بات ہے خاص طور پر آپ کے بچے کے غیرمعمولی رویے یا موڈ سے مشتعل ہونے کے بجائے ضروری ہے کہ اس سے بات چیت کی جائے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کسی بچے کو اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ وائرس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جیسے کوئی اس کا شکار نظر آتا ہے یا وہ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں یا وہ کس زبان میں بات کرتے ہیں۔ اگر انھیں خوف ہے کہ انہیں ناپسندیدہ ناموں سے پکارے جانے یا اسکول جانے کا اندیشہ ہے تو ان پر زور دیا جانا چاہیے کہ وہ کسی قابل اعتماد عزیز یا رشتے دار کو اس بارے میں بتائیں۔ اپنے بچوں کو یاد دلاتے رہیں کہ وہ اسکول میں ہوں یا آن لائن ہوں، وہ ہر حال میں محفوظ رہنے اور احترام کے مستحق ہیں۔
اپنے بچے کے ساتھ دیانت دارانہ گفتگو کریں:
اگر آپ اپنے بچے کو آن لائن اور اسکول میں محفوظ رہنے کے بارے میں آزادانہ اور ایماندارانہ گفتگو میں شامل کریں گے تو اس سے بچے کو ذہنی تنائو اور سماجی خوف سے نکالنے میں بہت مدد ملے گی۔ اپنے بچے کے ساتھ ایمانداری سے بات چیت کریں کہ صورتحال کیسی ہے اور ہر ایک کو اس سے کیسے مختلف طریقے سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ انہیں ہمت دیں کہ وہ پریشانیوں کے بارے میں بات کریں اور انہیں بتائیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ آپ ہر طرح کی صورتحال میں ان کے ساتھ ہیں۔۔ کھلی بات چیت کے ذریعے ان کو اپنی قیمتی اور عمدہ حمایت دیں اور یہ بھی جان لیں کہ امتیازی سلوک یا نامناسب کمیونیکیشن کبھی بھی قابل قبول نہیں ہے۔
جلد ہی جب اسکول دوبارہ کھل جائیں گے، والدین کو چیلنجز اور غیر متوقع حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر آپ اپنے بچے کو اسکول میں دوبارہ جانے کے دوران معمولات سے دستبردار ہونے یا پریشان ہونے کا نوٹس لیتے ہیں یا آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ آپ کا بچہ معمول سے کم یا زیادہ اپنے فون کا استعمال کررہا ہے تو آپ کو ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہوسکتی ہے کہ وہ اسکول میں پیش آنے والے حالات کا اچھی طرح سے مقابلہ نہیں کررہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مندرجہ بالا 4 نکات کو دہرائیں۔