وبا کے دنوں میں تعلیم کی بحالی کی کوششیں
وبا کے دنوں میں تعلیم کی بحالی کی کوششیں
کووِڈ 19 کی جان لیوا وبائی بیماری سے پہلے، پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کے 22.8 ملین بچے اسکولوں سے باہر تھے۔ اسکولوں سے باہر رہنے والے بچوں کی اس حیرت انگیز تعداد نے پاکستان کو اسکول سے باہر بچوں کے حوالے سے دنیا کی دوسری بڑی آبادی بنا دیا ہے۔ اسکول سے باہر ہونے والے ان بچوں کی اکثریت لڑکیاں ہی رہی ہیں۔
اسکولوں کی طویل بندش اور وبائی بیماری کے دور رس معاشرتی اور معاشی اثرات نے اس صورت حال کو مزید تشویش ناک بنا دیا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ایک حالیہ مطالعے’’ پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم اور کووڈ 19 ‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ گھریلو آمدنی میں کمی کے نتیجے میں پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے، پاکستانی لڑکیوں کی باضابطہ تعلیم تک رسائی کی ضرورت ہے۔
ابتدائی لاک ڈاؤن کے دوران متعدد گھرانے ابھی تک معاشی طور پر مالی مشکلات سے دوچار ہیں، اسکول جانے والی عمر کی بہت سی لڑکیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی گھریلو آمدنی کو بڑھانے کے لیے محنت مزدوری کریں یا گھریلو اخراجات کو کم کرنے کے لیے انہیں اسکول جانے سے روک دیا جائے۔
اسی رکاوٹوں اور بندشوں کے مشکل دور میں عالمی بینک کے ایک تخمینے کے مطابق وبائی مرض کے اختتام تک کم از کم مزید ایک ملین پاکستانی بچوں کے اسکول چھوڑنے کا امکان ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران لگ بھگ 2.2 ملین بچوں میں سے نصف بچوں کو ایک سال کے دوران ہی اسکول چھوڑنے پر مجبور کردیا جائے گا۔
پوری ایک دہائی کے دوران بچوں کی ایک بڑی تعداد کے تعلیم سے تیزی سے پیچھے ہٹنے کے باعث یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے کمزور تعلیم کے شعبے کو ریاست کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
اس آنے والے بحران کے جواب میں ایک مربوط حکمت عملی کا مطالبہ کیا گیا ہے جو گذشتہ عشرے میں انتہائی پسماندہ افراد کے لیے تعلیم کی ترغیب دے کر، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے تعلیم سے حاصل ہونے والے فوائد کے سلسلے میں مدد فراہم کرے گی۔
تاہم اس میں سے کسی بھی اقدام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک طرف تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری میں مستقل طور پر اضافہ کرنے کے لیے پاکستان کو مالی امور میں اضافہ کرنا ہوگا اور دوسری طرف ملک کے کمزور نظام تعلیم کو وبائی مرض کے بعد بہت زیادہ ترقی دینے کے اقدامات پر حکمت اور دانش مندی سے سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔
بدقسمتی سے ماضی کی مثال اس وبائی مرض کے دوران جدوجہد کرنے والے لاکھوں پاکستانی بچوں کے تعلیمی امکانات کی حمایت نہیں کرتی ہے۔ پاکستان گذشتہ بیس سال کے دوران اپنے تعلیمی ترقیاتی اخراجات میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس وقت درپیش ہنگامی صورتحال اور معاشی خوشحالی کے سلسلے میں حکومتی سطح پر درست اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ یہ کہے بغیر کہ پاکستان نہ تو اپنے ترقیاتی اہداف کا ایک معمولی حصہ بھی حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی ایسی افرادی قوت کے ساتھ مستقبل میں ایسی ہی کسی ہنگامی صورتحال سے لگنے والے جھٹکے برداشت کرنے والا ملک بن سکتا ہے جو بڑے پیمانے پر ناخواندہ اور غیر ہنر مند ہے۔
پاکستان کو ایک خوش قسمت ملک بنانے اور ہمیشہ کے لیے مثبت تبدیلی لانے کے لیے حکمران طبقے کو تعلیم کو ایک اولین ترجیحی مضمون سمجھنا پڑے گا اور اس کی سرمایہ کاری کی ترجیحات اس سلسلے میں ایک اہم اشارے کی حیثیت سے کام کریں گی۔
کم از کم وفاقی اور صوبائی سطح پر تعلیم کے فروغ کے لیے آنے والے وزراء کو ہمارے بچوں کے لیے آئندہ بجٹ میں اس سے کہیں زیادہ مضبوط کیس لڑنا پڑے گا جتنا کہ وہ ماضی میں لڑ چکے ہیں۔ وبائی مرض نے پہلے ہی ملک کے تعلیمی فوائد کو پیچھے دھکیل دیا ہے جبکہ کامیابی کی ضمانت سمجھے جانے والے اس شعبے میں فوری طور پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔
(یہ خبر ایکسپریس ٹریبیون کی 17 مئی 2021 کی اشاعت سے اخذ کی گئی ہے)