آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے بنی مصنوعی آواز کے ذریعے 10 لاکھ ڈالر کی اغوا کی واردات کی کوشش
آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے بنی مصنوعی آواز کے ذریعے 10 لاکھ ڈالر کی اغوا کی واردات کی کوشش
ٹیکنالوجی کی دنیا میں آئے روز ہونے والی نت نئی پیش رفتوں نے دنیا کو حیرت میں مبتلا کررکھا ہے۔ ایک طرف انسانیت سے محبت کرنے والے افراد آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری جانب مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد بھی اے آئی کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ امریکی ریاست ایریزونا میں پیش آیا جہاں مجرموں نے اے آئی کے ذریعے اغوا کی ایک کوشش میں لڑکی کی آواز کو کلون کیا اور اس کے والدین سے 1 ملین ڈالر کا تاوان طلب کیا۔۔
ایک نوجوان لڑکی کی آواز کو کلون کرکے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے، مجرموں نے ایریزونا سے تعلق رکھنے والی ایک ماں کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا جب انہوں نے جینیفر ڈی سٹیفانو نامی ایک خاتون کے فون پر کال کی جس میں اس نے اپنی بیٹی کو روتے ہوئے اور مدد کی التجا کرتے ہوئے سنا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، جینیفر ڈی سٹیفانو نے بتایا کہ ان کی بیٹی بریانا اسکائی ویکیشنز پر تھی اور اپنے دوستوں کے ساتھ گھوم پھر رہی تھی جب اسے ایک گمنام نمبر سے فون آیا اور اس نے اپنے بیٹی کو روتے اور مدد کے لیے چلاتے ہوئے سنا جسے سن کر وہ شدید پریشان ہوگئی۔ اس کے بعد ایک شخص نے اس سے رابطہ کیا اور اس کی بیٹی کو آزاد کرنے کے لیے1 ملین ڈالر کا مطالبہ کیا۔
اس شخص نے جینیفر ڈی سٹیفانو کو دھمکی دی کہ اگر اس نے رقم ادا نہیں کی تو وہ اس کی بیٹی کے ساتھ برا سلوک کرے گا اور تمام نتائج کی ذمے دار وہ خود ہوگی۔
جب جینیفر ڈی سٹیفانو کو کال موصول ہوئی، تو اس نے اس شخص کے ساتھ تاوان کی قیمت کو کم کرنے کے لیے بات چیت کی جو اس نے مانگی تھی۔ تاوان کی کال کے دوران، اس کے ساتھی ایک نے پولیس سے رابطہ کیا اور اس کے شوہر نے بریانا سے رابطہ کیا، جس نے تصدیق کی کہ وہ محفوظ ہے اور اس کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
جینیفر کی بیٹی کی آواز اس آواز سے اتنی ملتی جلتی تھی جو اس نے فون پر سنی تھی، جسے مصنوعی ذہانت سے کلون کیا گیا تھا کہ وہ چونک گئی۔
جینیفر کی بیٹی بریانا نے بتایا کہ وہ تصور بھی نہیں کرسکتی کہ اگر اس کی ماں نے ذہانت کا مطاہرہ کرتے ہوئے لوکیشن شیئر نہ کی ہوتی یا پولیس سے رابطہ نہ کیا ہوتا تو صورتحال کتنی خوفناک ہو سکتی تھی۔
تاہم اب بھی اس حوالے سے تحفظات موجود ہیں کہ مجرموں نے بریانا کی آڈیو کیسے حاصل کی اور انہیں اس کے خاندان کے افراد کے بارے میں بھی معلوم تھا اور یہ بھی پتہ تھا کہ وہ چھٹیوں پر اپنے آبائی علاقے میں آئی ہوئی تھی۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہے۔