ورچوئل کلاس روم میں حصہ لینے کے لیے طلبا کی مدد کا طریقہ
ورچوئل کلاس روم میں حصہ لینے کے لیے طلبا کی مدد کا طریقہ
ہم سب جانتے ہیں کہ اسکول میں پڑھائی کے دوران جب اساتذہ کوئی سوال پوچھتے ہیں تو کلاس کا کوئی ایک بچہ جواب دینے کے لیے فوراً اپنا ہاتھ اٹھانا پسند کرتا ہے جبکہ ہمیشہ بہت سے ایسے بچے ہوتے ہیں جو کلاس روم کی سرگرمیوں میں حصہ لینے یا مشغول ہونے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر بچے ایسے موقع پر جواب دینے سے پہلے اپنی سوچوں میں گم ہوجاتے ہیں یا سوال پوچھے جانے پر مغلوب ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچوں کو سوچنے کے لیے کچھ وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان طلباء کے لیے مشکل ہے کہ وہ اس سرگرمی میں شریک ہوں اور اپنی آواز کو سننے کا متمنی بنائیں۔
کچھ طلباء کے لیے کلاس روم کی سرگرمی میں حصہ لینا مشکل ہوسکتا ہے لیکن دور دراز کی یا فاصلاتی تعلیم کے ساتھ یہ چیلنجز پہلے سے کہیں زیادہ شدت اختیار کر گئے ہیں۔
بہت سے اساتذہ نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ ورچوئل کلاس رومز میں طلبا کے ساتھ بات چیت کرنا یا ان کے تاثرات اور باڈی لینگویج کو جاننا مشکل ہوتا ہے۔
ٹیکنالوجی کے بارے میں اساتذہ کہتے ہیں کہ یہ ایک اور رکاوٹ ہے جو آن لائن گفتگو، سیاق و سباق کو سمجھنے اور کلاس روم میں ٹھیک ٹھیک پیغام رسانی کے امکانات اور پڑھائے جانے کے عمل میں ایک طرح کی رکاوٹ ہے۔
لیکن یہ ثابت ہوا کہ طلباء کو ورچوئل کلاس رومز میں حصہ لینے کے لیے ایک اچھی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
ہم نے متعدد اساتذہ سے بات کی اور یہ سمجھنے کے لیے ہزاروں سوشل میڈیا گروپس سے گزرے کہ وہ درس تدریس کی سرگرمیوں میں طلباء کی شرکت اور حصہ داری کے معاملے سے کیسے نمٹتے ہیں۔
ہمیں پتہ چلا ہے کہ اساتذہ کلاس روم کی اقدار کو نافذ کرنے اور ان کی مساوی شراکت کو یقینی بنانے کے لیے مخصوص اسمارٹ حکمت عملی استعمال کررہے ہیں یہاں تک کہ وہ طلبا بھی جو انٹروورٹ ہیں یا کسی سوال کا جواب دینے کے لیے فوراً ہاتھ اٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اس اسمارٹ اسٹریٹجی کی بدولت سیکھنے کے عمل میں آگے آسکتے ہیں۔
اساتذہ نے کیمپس گرو کو درس و تدریس کے روایتی طریقہ کار کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے روایتی تعلیم کے لیے اپنے کلاس روم میں درخواست دی۔ کچھ نے کہا کہ براہ راست ویڈیو چیٹس نے انہیں طلباء کو کلاس روم کی سرگرمیوں میں شامل کرنے میں مدد فراہم کی جب کہ دوسروں نے ڈیجیٹل ٹولز کے بارے میں بات کی، جس سے طلباء کو ورچوئل کلاس رومز میں شرکت بڑھانے کے عمل میں مدد ملی۔
انٹرنیٹ اور دنیا بھر کے اساتذہ کے اشتراک کردہ تجربات کی کھوج کرتے ہوئے ہمیں 'اسپائڈر ویب ڈسکشن' کے طریقہ کار کے بارے میں پتہ چلا۔ جس میں اساتذہ کی زیرقیادت گوگل میٹ پر بحث ہوئی۔
کلاس شروع کرنے سے پہلے طلبا سے انفرادی طور پر جواب دینے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس سے انہیں باقی کلاس میں زیادہ وسیع اور طبقاتی شرکت کے لیے اسے جمپنگ آف پوائنٹ کے طور پر لینے کا موقع ملا۔ جب طلبا نے گفتگو میں شمولیت اختیار کی، اساتذہ نے اس گفتگو کا رخ متعین کرنے کے لیے ایک کاغذ پر کچھ لکیریں کھینچیں اور مکڑی کے ویب کی طرح کا ایک ماڈل بنایا۔ بعد میں ٹیچر نے گفتگو کے بہاؤ پر غور کرنے کے لیے اس ماڈل کو طلباء کے ساتھ شیئر کیا جو بات چیت کرتے، دوسرے طلباء کے نظریات پر روشنی ڈالتے اور دوسروں کو گفتگو کرتے ہوئے سن رہے تھے۔
اس نقطہ نظر کی مدد سے طلباء کو ان تعلیمی سرگرمیوں میں اپنی شرکت کا اندازہ لگانے میں مدد ملی اور بحث و مباحثہ اور کلاس روم کی سرگرمی میں حصہ لینے کی ترغیب ملی۔
آن لائن گریڈ 2 اور 3 کے انعقاد کے دوران جونیئر گریڈ کے کچھ اساتذہ نے 'ایموجی اپروچ' کو بہت عملی پایا۔ طلباء سے یہ پوچھنے کے لیے کہ وہ اساتذہ کی بات چیت اور تصورات کو سمجھ رہے ہیں، چاہے وہ کوئی سوال ٹائپ کریں یا انگوٹھے کو اوپر یا نیچے کرکے اپنے ردعمل کا اظہار کریں۔ جس کا مطلب ہوگا کہ انہیں بات سمجھ آرہی ہے یا نہیں۔ ٹیچر نے بھی ایک وقت میں صرف ایک ایموجی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اساتذہ نے اس خیال کو آپس میں شیئر کیا کہ اس کی مدد سے ان کے طالب علموں کو کلاس کے دوران ہوشیار رہنے اور کلاس روم میں زیادہ جوش و خروش سے حصہ لینے میں مدد ملی۔ نوجوان طلبا کے لیے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کو صحیح یا غلط لکھنے کے لیے ٹی اور ایف یعنی ٹرو اور فالس کا آپشن دینے کے عمل نے بھی بہت مدد کی۔
اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ نے مختلف پلیٹ فارمز کے حوالے سے آپس میں تبادلہ خیال کیا جس سے طلباء کو اپنے جوابات کو زوم یا گوگل چیٹ میں ٹائپ کرنے کی اجازت ملتی ہے، اس سے ان کے لیے کی بورڈ پر لکھنے کی مشق میں بھی اضافہ ہوا۔
ایک اور ہائی اسکول کے ٹیچر نے یہ خیال شیئر کیا کہ وہ فاصلاتی تعلیم کے دوران روایتی اور ڈیجیٹل دونوں طریقوں کا امتزاج بنا کر اسے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
طلباء کو براہ راست سیشن میں شامل کرنے سے پہلے ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے ریکارڈ شدہ لیکچرز طلباء میں بانٹ دیئے گئے تھے۔
براہ راست کلاس روم کے آغاز میں ہی طلباء نے انفرادی طور پر اپنی سمجھ بوجھ کو آپس میں بانٹ لیا اور ریکارڈ شدہ لیکچرز کے ذریعے جو کچھ سمجھا تھا اس تصور کا خلاصہ کیا۔
اساتذہ نے آئیڈیاز پر گفتگو کرنے کے لیے طلبا کو چھوٹے گروپوں میں بھی تقسیم کیا اور یہ جاننے کے لیے کہ اسٹوڈنٹس نے اسباق کو اچھی طرح سمجھا ہے یا نہیں، انہیں سننے اور شناخت کرنے میں زیادہ وقت صرف کیا۔ اس عمل کی مدد سے وہ زیادہ سے زیادہ اہداف کے ساتھ طلباء کی اصلاح اور ان کی انفرادی تفہیم پر عمل پیرا ہونے میں کامیاب رہے۔
کچھ ایلیمنٹری اسکول ٹیچرز نے شیئر کیا کہ "پراجیکٹ پر مبنی سیکھنے" کے نقطہ نظر کو اپنانے سے ان کے طلباء کو براہ راست سیشنز میں زیادہ فعال طور پر حصہ لینے کی ترغیب دی گئی۔ انہیں مزید اسائنمنٹس اور پراجیکٹس دیئے گئے تھے اور جب وہ اپنے پراجیکٹس پیش کر چکے تو وہ اپنے تجربے، تحقیق کے طریقہ کار اور دلچسپی کے امور کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے آزاد تھے، اس عمل سے ان کے اندر خود بخود آپس میں بہت کچھ بانٹنے کی سوچ پیدا ہوئی۔
طلباء کو زوم پر چھوٹے گروپوں کی شکل میں بریک آؤٹ رومز میں بھیجا گیا تاکہ ان کے جوابات پر تبادلہ خیال کیا جاسکے اور ان جوابات کو اساتذہ ریکارڈ کرسکیں۔ ہر بریک آؤٹ روم میں ٹیچر نہیں تھے۔ طلبا نے براہ راست گوگل دستاویزات اور شیٹس پر بھی اپنے ردعمل لکھے۔ ہر گروپ کے رضاکاروں نے اپنے جوابات سب کے ساتھ شیئر کیے۔
کم عمر طلبا کے لیے کلاس روم کے آغاز میں شو اینڈ ٹیل یعنی دکھائو اور بتائو کی اپروچ نے طلبا کو ورچوئل ماحول میں بات کرنے میں راحت دی۔ اساتذہ طلباء سے سوالات پوچھتے جیسے آپ نے ایسا کیوں کہا؟ آپ نے کیا دیکھا؟ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ اس عمل سے اسٹوڈنٹس زیادہ جو ش و خروش کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوں میں شامل ہوئے۔
اساتذہ کا کہنا تھا کہ اس سے انہیں ایک طرح سے ورچوئل لرننگ کے ماحول میں جمی برف کو توڑنے میں مدد ملی اور اسٹوڈنٹس بھی پہلے کے مقابلے میں پڑھنے اور سیکھنے کے عمل میں ایک قدم آگے نظر آئے۔۔
اپنے ٹیچنگ یا سیکھنے کے تجربات کو بانٹنے کے لیے کمنٹ باکس میں اپنی قیمتی رائے درج کریں۔