کتاب پڑھ کہ پڑھائی ضرورت ایسی ہے۔۔۔
کتاب پڑھ کہ پڑھائی ضرورت ایسی ہے۔۔۔
مطالعے سے آپ کے ذہن کی مشق ہوتی ہے اور اس کی کارکردگی میں بہتری آتی ہے۔ آج کے دور میں لوگوں کی پڑھنے کی عادت کم اور کہیں کہیں تو بالکل ختم ہوتی جارہی ہے۔ کتاب کلچر سے دوری کے باعث ہماری توجہ کا دورانیہ کم ہوتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تیزی سے اپنی راہ سے بھٹک جاتے ہیں۔ ہم کسی چیز پر زیادہ دیر تک ارتکاز نہیں رکھ پاتے اور فوراً اپنی بات چیت کا رخ کسی اور چیز کی جانب موڑ دیتے ہیں۔ آج کے اس دور میں چونکہ ہمارے پاس خود کو مشغول کرنے کے لیے بہت ساری چیزیں ہیں۔ جب ہم پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں تو یقیناً سیکھنا بھی چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ پڑھتے رہنے سے ہم کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور سیکھتے ہیں اور اس سے ہماری عمومی معلومات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر جب ہم پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں تو ایک فرد کی حیثیت سے ہماری ذہنی نشوونما رُک جاتی ہے یہاں تک کہ انتہائی عملی ذہن رکھنے والے افراد بھی اگر پڑھنا چھوڑ دیں تو ان کا ذہن جامد ہونے لگتا ہے۔ اس لیے اپنی معلومات میں اضافہ کرنے اور کچھ نیا سیکھنے کے لیے تسلی سے کسی آرام دہ جگہ پر بیٹھ کر کچھ نہ کچھ پڑھنا انتہائی ضروری ہے۔ مطالعے سے ہمیشہ نئی راہیں کھلتی ہیں اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسانی ذہن میں فکر و نظر کے نئے اُفق نمودار ہوتے ہیں، جس سے تازہ خیالی اور بلند فکری پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے۔
پڑھنے کی عادت بنانا اور اسے برقرار رکھنا ایک ایسی چیز ہے جس کی ضمانت آپ کو زندگی میں بہت آگے تک لے جاتی ہے۔
ایک بار جب آپ کالج میں داخل ہوتے ہیں تو چیزوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آپ کو بہت زیادہ تھیوری پڑھنی ہوگی۔ جبکہ کسی یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ ہونے کے ناتے آپ کو ہفتے میں کم از کم 50 سے 100 صفحات پڑھنے ہوتے ہیں جو کہ ایک بالکل عام سی بات ہے۔ نصابی کُتب، اکیڈمک پیپرز، حوالہ جات وغیرہ کا مطالعہ آپ کی روز مرہ زندگی کا حصہ ہے۔ لیکن اگر آپ واقعی دیگر افراد کے مقابلے میں فضیلت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان سبھی چیزوں کو آپ کی زندگی کا حصہ بننا ہوگا۔
لہٰذا ، عادت کے طور پر پڑھنے کے قابل ہونا ضروری ہے۔ یہاں کچھ اور وجوہات ہیں جو پڑھنے کی عادات کی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
ہر بار جب آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو وہ آپ کے ماضی کے تجربے کے مقابلے میں آپ کو زندگی کے کسی نئے رُخ سے آشنا کرتی ہے جس سے آپ زندگی، لوگوں اور دنیا کو ایک نئی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں اور آپ کا ذہن پیداواری انداز میں سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ ایلن مسک ہمارے عہد کے ایک انتہائی کامیاب شخص ہیں ان کا کہنا ہے کہ مطالعے کا راز جاننے کے لیے ضروری ہے کہ علم کو کسی علامتی درخت کی طرح دیکھیں- اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ بنیادی اصولوں کو سمجھتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ پتیوں اور شاخوں کی تفصیلات میں داخل ہوں آپ کے لیے ان نرم اور کمزور شاخوں سے الجھنے کے لیے کچھ نہیں ہے جب تک کہ آپ اس کے تنے یا بڑی اور مضبوط شاخوں کو نہیں جان لیتے۔،،
علم کی مثال بھی ایک درخت جیسی ہے جس کا تنا بھی ہوتا ہے، جڑ بھی ہوتی ہے اور شاخیں اور پتیاں بھی مگر اس کے ثمرات سے فیضیاب ہونے کے لیے اس پورے درخت کے بارے میں جاننا ضروری ہوتا ہے۔
کتابوں کو بات چیت کا ماحضر کہا جاتا ہے یعنی جتنا آپ کا مطالعہ اچھا ہوگا اور آپ نے جتنی اچھی کتابیں پڑھی ہوں گی آپ کی بات چیت اتنی ہی دلچسپ اور کار آمد ہوگی۔ جب آپ کتابیں پڑھتے ہیں تو آپ معلومات، قصوں، کہانیوں اور تجربات کو جذب کرتے ہیں۔ جو آپ کو ایک ہمدرد فرد میں تبدیل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور دوسروں کے لیے انتہائی قابلِ قبول شخص بناتا ہے۔ مطالعہ ہمیشہ آپ کے کام آتا ہے اور آپ کو دوسرے کے تجربات، نظریات اور آراء پر غور کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اگر آپ باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں (قطع نظر اس کے کہ آپ کس نوعیت کی کتابیں پڑھتے ہیں) تو آپ خود کو ایک ایسا شخص بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں جس سے سنجیدہ موضوعات پر بات چیت کی جاسکے۔
جب آپ کوئی کتاب پڑھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کسی دوسرے شخص (مصنف) کی سوچ یا خیالات کو پڑھ رہے ہوتے ہیں چاہے وہ کوئی فکشن پر مبنی کتاب ہو یا حقائق نگاری ہو، اس عمل کے دوران آپ اُس بات چیت کا حصہ بن جاتے ہیں جو آپ کے، کتاب کے مصنف کے اور اس کی تخلیق کردہ دنیا کے درمیان ہوتی ہے یہ سب مل کر آپ پر ایک نئی دنیا کا دروازہ کھولتے ہیں جس میں داخل ہونا اور اس سے حظ اٹھانا اپنی نوعیت کا ایک انوکھا اور شاندار تجربہ ہے۔
ذرا تصور کریں کہ آپ کسی چھوٹے سے، تنگ و تاریک اور سردی سے بھرے کمرے میں بیٹھ کر کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں اور اس میں درج کہانی آپ کو کسی اُجلے نگر میں لے جاتی ہے جہاں پریاں ہیں، نیلا اور گہرا سمندر ہے، کھلی فضا ہے، حدت آمیز گلابی دھوپ ہے اور باتیں کرنے والے درخت ہیں، ایسے عالم میں آپ یقیناً اپنی موجودہ کیفیت کو بھول جاتے ہیں اور اس کہانی کے کرداروں کے ساتھ جینے لگتے ہیں۔
ہم میں سے کچھ افراد سیکھنے کے لیے پڑھتے ہیں جبکہ لوگ فرار ہونے کے لیے پڑھتے ہیں۔ اگر کوئی کتاب دلچسپ ہے اور آپ کو اپنے ساتھ باندھنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو آپ اس میں ڈوب جائیں گے۔ یہ آپ کے ذہن پر بالکل مراقبے کے انداز میں اثر انداز ہوگی، گرم گرم چائے کے ایک اچھے سے کپ یا کسی آرام دہ سرگرمی کی طرح جس میں آپ خود اپنی صحبت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مطالعے کے دوران آپ کے دل کی دھڑکن اعتدال میں رہتی ہے اور آپ کا ذہن معمول سے زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے کیونکہ اس دوران آپ کی توجہ مکمل طور پر اس کتاب اور اس میں درج تفصیلات پر ہوتی ہے۔ اس سے آپ کو ذہنی، جسمانی اور روحانی سکون ملتا ہے اور آپ میں کشادہ خیالی پیدا ہوتی ہے۔ ایسی چیزوں کو پڑھنا جو آپ کی دلچسپی کا باعث ہیں ان معلومات کو برقرار رکھنے میں آپ کی مدد کرتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ معلومات آپ کے لیے زندگی میں کتنی کار آمد ثابت ہوسکتی ہیں۔ اگر آپ کو آج سے 6 سال پہلے پڑھی ہوئی کسی کتاب کا کوئی منظر نامہ یاد ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک دلچسپ کتاب تھی جسے آپ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی بھول نہیں پائے۔