ڈائنوسار کا مکمل طور پر محفوظ ایمبریو فوسلائزڈ انڈے کے اندر دریافت
ڈائنوسار کا مکمل طور پر محفوظ ایمبریو فوسلائزڈ انڈے کے اندر دریافت
چینی سائنسدانوں نے ایک ایسے ڈائنوسار کے ایمبریو کی دریافت کا اعلان کیا ہے جو بالکل کسی مرغی کے چوزے کی طرح انڈے سے نکلنے کو تیار تھا۔ یہ ایمبریو جنوبی چین کے شہر گینژو میں دریافت ہوا ہے اور محققین (ریسرچرز) کا اندازہ ہے کہ چھ کروڑ 60 لاکھ سال قدیم ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ بغیر دانتوں والا ایک تھیروپوڈ یا اوویریپٹرسار ہے۔ اس کا نام بے بی ینگلیانگ رکھا گیا ہے۔ ریسرچر ڈاکٹر فیئون ویسم ما نے کہا یہ دریافت ہونے والا اب تک کا سب سے بہتر ایمبریو ہے۔
اس دریافت نے محققین کو ڈائنوسارز اور آج کے پرندوں کے درمیان تعلق کے بارے میں مزید معلومات فراہم کی ہیں۔ دریافت ہونے والے اس فوسل میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایمبریو خم دار صورت میں تھا جسے 'ٹکنگ' کہا جاتا ہے۔ پرندوں میں ایسا بچے کے انڈے سے نکلنے سے عین پہلے دیکھا جاتا ہے۔ جنین کی محفوظ حالت، اور ساتھ ہی انڈے کے اندر اس کا مقام، اسے ایک شاندار دریافت بناتا ہے۔
اس کا مطالعہ اس یونیورسٹی اور بیجنگ کی چائنا یونیورسٹی آف جیو سائنسز کے محققین نے کیا، جو اس ہفتے جریدے آئی سائنس میں شائع ہوا۔
ڈاکٹر ویسم ما نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس دریافت سے عندیہ ملتا ہے کہ جدید پرندوں کا یہ رویہ پہلے اُن کے ڈائنوسار آباؤ اجداد میں شروع ہوا اور پھر بتدریج پروان چڑھا۔
اوویریپٹرسارز یعنی انڈہ چور چھپکلیاں درحقیقت پروں والے ڈائنوسارز تھے جو کریٹیشیئس دور کے اواخر یعنی 10 کروڑ سال قبل سے لے کر چھ کروڑ 60 لاکھ سال کے درمیان آج کے ایشیا اور برِ اعظم شمالی امریکہ میں بستے تھے۔
اوویریپٹرسارز گروہ سے تعلق رکھنے والے ڈائنوسارز کی چونچ کی ساخت اور خوراک الگ الگ طرح کی ہوا کرتی تھی اور ان کی جسامت آج کے دور کے ٹرکی سے لے کر 26 فٹ لمبے جائیگینٹوسارز جتنی تک ہو سکتی تھی۔
معدوم ہو چکی حیاتیات کے ماہر پروفیسر اسٹیو بروسیٹ بھی اس تحقیق کا حصہ تھے۔ اُنھوں نے ٹوئٹ کی کہ یہ اُن کے اب تک دیکھے گئے سب سے حیران کُن ڈائنوسار فوسلز میں سے ایک ہے، اور یہ کہ یہ ایمبریو بالکل انڈے سے نکلنے کے قریب تھا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر بے بی ینگلیانگ پرورش پا جاتا تو دو سے تین میٹر لمبا ہوتا اور ممکنہ طور پر پودے کھاتا۔
محققین کے مطابق یہ جانور اندازاً سات کروڑ 20 لاکھ سال سے چھ کروڑ 60 لاکھ سال کے درمیان رہا کرتا تھا اور اچانک گرنے والے مٹی کے تودے نے اسے ہمیشہ کے لیے مٹی میں محفوظ کر دیا۔
بے بی ینگلیانگ سر سے لے کر دم تک 10.6 انچ لمبا ہے اور یہ 6.7 انچ لمبے انڈے کے اندر موجود ہے۔ اسے چین کے ینگلیانگ سٹون نیچرل ہسٹری میوزیم میں رکھا گیا ہے۔
ویسے تو یہ انڈہ سنہ 2000 میں دریافت ہوا تھا مگر اسے 10 سال کے لیے اسٹوریج میں رکھ دیا گیا تھا۔ مگر جب میوزیم میں تعمیراتی کام شروع ہوا اور پرانے فوسلز کی ترتیب ہو رہی تھی تو محققین کی توجہ اس انڈے پر گئی جس کے بارے میں اُنھیں شک ہوا کہ اس میں ایک ایمبریو موجود ہے۔
ڈائنوسار کے جسم کا کچھ حصہ اب بھی پتھر سے ڈھکا ہوا ہے اور محققین اب جدید اسکیننگ ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کے مکمل ڈھانچے کا خاکہ بنائیں گے۔
بیسویں صدی میں فوسلز پر تحقیق اور جینیاتی تجزیے کے بعد سائنسی برادری کا اس حوالے سے عمومی اتفاق ہے کہ آج کے دور کے پرندے ڈائنوسارز کی ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور عام طور پر انہیں ڈائنوسارز کی طرح رینگنے والے جانوروں کے ہی عمومی گروہ (جنرل گروپ) میں رکھا جاتا ہے۔
آج کے پرندوں اور دیگر رینگنے والے جانوروں کی طرح ڈائنوسارز بھی انڈے دینے والے جانوروں میں سے تھے اور جراسک دور کے اواخر میں آج کے پرندوں کی ابتدائی شکل پرندوں والے ڈائنوسارز کی شکل میں سامنے آئی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ چھ کروڑ 60 لاکھ سال قبل ایک بہت بڑے شہابِ ثاقب کے زمین پر گرنے کے باعث ہونے والی تباہی سے بڑے ڈائنوسارز کا دنیا سے خاتمہ ہو گیا تھا تاہم پرندوں کی صورت میں ان کی نسل طویل عرصے تک ہوائوں میں اڑان بھرتی رہی۔