پاکستان کی تعلیم کو کس چیز نے آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے؟
پاکستان کی تعلیم کو کس چیز نے آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے؟
کراچی لٹریچر فیسٹیول کے 12 ویں ایڈیشن کے تیسرے روز پاکستان کے مجموعی نظام تعلیم کی پریشانیوں اور اسے سیاسی و سماجی عدم دلچسپی کی دلدل سے نکالنے کے لیے درکار پالیسیوں اور کوششوں پر ایک اہم سیشن کی میزبانی کی گئی۔
یہ اجلاس دی ایجنٹس آف چینج کے عنوان سے ایک کتاب کی رونمائی پر مبنی تھا، جس میں پاکستان میں تعلیم کو درپیش مسائل، پریشانیوں اور تبدیلی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
مزید پڑھیں: او لیول، آئی جی سی ایس ای کے امتحانات 10 مئی سے ہوں گے، شفقت محمود
یہ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہے اور اس میں کنڈرگارٹن سے لے کر گریڈ 12 تک کے تعلیمی نظام پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے جسے کے 12 ایجوکیشن کہا جاتا ہے۔
اس کتاب کے مرکزی مصنف امجد نورانی نے مذاکرے کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم میں اصلاحات کا ہونا ایک ارتقائی عمل ہے اور اس میں سیاسی اور سماجی حمایت کی ضرورت ہوگی۔
اس نکتے پر اظہارخیال کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم اور کتاب کے شریک مصنف ندیم حسین جو کہ اس اجلاس کے ماڈریٹر بھی تھے، نے اسکول آف ہیومنیٹیز اینڈ سوشل سائنس کے سابق ڈین ڈاکٹر انجم الطاف سے پوچھا کہ اگر ہمیں پاکستان میں تعلیم کی اصلاحات کے لیے معاشرتی اور سیاسی وکالت کی ضرورت ہے، تو اس کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
اس پر ڈاکٹر انجم الطاف نے جواب دیا کہ تعلیم پاکستان میں ایک سیاسی مسئلہ ہے اور ریاست کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
کتاب کے مصنف امجد نورانی نے اس کتاب کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دی ایجنٹس آف چینج پاکستان میں تعلیمی نظام میں تبدیلی کے لیے فکر انگیز بصیرت، آراء، ذاتی کہانیاں اور تجویز کردہ اقدامات پر مبنی ایک تالیف ہے۔ اس سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ اچھی تعلیم کس طرح غربت کو دور کرسکتی ہے اور معیاری تعلیم کے مساوی مواقع کے ذریعے سماجی ترقی کو کس طرح آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی تناظر میں اصلاحات کے لیے واضح اور ممکنہ تجاویز کی ضرورت ہے۔ پُرفکر تجزیے کی بنیاد مستحکم تحقیق پر ہوتی ہے۔ تعلیمی برادری میں بات چیت، شعبے کے ماہرین کے انٹرویوز اور نظام تعلیم کے بہت سارے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پہلا ذریعہ علم ہے، تعلیم کے ذریعے ہی سماجی و معاشی ترقی ممکن ہے۔
مزید پڑھیں: حبیب یونیورسٹی میں پوسٹ کالونیل ہائر ایجوکیشن کانفرنس کا انعقاد
گلوبل فیلو ووڈرو ولسن سنٹر برائے بین الاقوامی اسکالرز کی نادیہ نوی والا نے کتاب کو مطالعے کے لیے تجویز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تعلیم کے بارے میں گفتگو عموماً حکومتی نمائندوں اور انٹرنیشنل ایکٹرز کے انتہائی سطحی کردار پر مرکوز ہوتی ہے۔ دی ایجنٹس آف چینج، پاکستان کی متحرک سول سوسائٹی کو ایک نادر ونڈو فراہم کرتی ہے اور ان کی ملک میں معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو اجاگر کرتی ہے، انہوں ںے بتایا کہ پاکستان اسکول جانے کی عمر والے بچوں کی آبادی میں دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔
نادیہ نوی والا نے کہا کہ ملک میں اصلاحات کے لیے پاکستان کی اشرافیہ، کارکنوں، دانشوروں، اساتذہ اور طلبہ کی قیادت کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب مصنف کے نقطہ نظر کو براہ راست اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس میں پاکستان کو مثبت تبدیلی کی راہ پر گامزن کرنے اور مقامی تجربے سے حاصل ہونے والے اجتماعی اقدامات کے امکانات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے حبیب یونیورسٹی کے صدر واصف اے رضوی نے کہا کہ ٹی سی ایف بنیادی خدمت یعنی بنیادی تعلیم کی فراہمی، تعلیم کے حوالے سے ایک پورے معاشرے کا شعور اجاگر کرنے، وسیع پیمانے پر برادری کی ملکیت کو متحرک کرنے اور انسان دوستی کے لیے اقدامات کے حوالے سے سب سے قابل ذکر فائونڈیشن ہے۔
یہ کتاب دی ایجنٹس آف چینج کو پاکستان کے نامور سماجی کارکن اور انسان دوست شخصیت مرحوم عبد الستار ایدھی کے نام انتساب کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں تمام آن کیمپس سرگرمیوں پر پابندی عائد
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کے بیٹے فیصل ایدھی نے کہا کے 12 کی تعلیمی اصلاحات کے بارے میں بحث شروع کرنے کے لیے دی ایجنٹس آف چینج ایک منفرد کوشش ہے۔ یہ ایک ایسی گفتگو ہے جس میں معیاری تعلیم تک رسائی پر توجہ دی گئی ہے جو پسماندہ طبقے اور ورکنگ کلاس کی زندگیوں کو تبدیل کرسکتی ہے۔اس کتاب کے مصنفین نے ہمارے حکمران طبقے کو یاد دلایا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری سے قومی ترقی اور خوشحالی کا راستہ طے کیا جاسکتا ہے۔
اس تقریب کے بعد نامور وکیل اور شہری حقوق کے کارکن شہاب استو نے ٹوئیٹ کیا، آئیے امید کرتے ہیں کہ یہ بہت اچھی طرح سے تحقیق شدہ کتاب ہمارے بگڑے ہوئے تعلیمی نظام میں مطلوبہ تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہوگی۔