یونیورسٹیوں میں چائے کی جگہ روایتی لسی اور ستو استعمال کرنے کی تجویز
یونیورسٹیوں میں چائے کی جگہ روایتی لسی اور ستو استعمال کرنے کی تجویز
کیا دیسی، رواتی اور مقامی مشروبات پاکستان کی یونیورسٹیوں میں مقبول ترین تفریح کی جگہ لے سکتے ہیں، جسے 'چائے اور بسکٹ' کا وقت بھی کہا جاتا ہے؟
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ایس سی) نے قومی درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے چند آئیڈیاز تجویز کیے ہیں، جو کہ وفاقی حکومت کی جانب سے متعدد غیر ضروری اور لگژری اشیا پر پابندی کے موافق ہے، جس میں بیشتر پاکستانیوں کی ہر وقت کا پسندیدہ مشروب چائے سرِ فہرست ہے، جسے ہم سب طلباء اور اساتذہ جانتے ہیں اور دن بھر اس سے اچھی طرح سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے قومی درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے یونیورسٹیوں میں چائے کی جگہ روایتی لسی اور ستو کو دینے کے لیے اپنی تجویز پیش کی ہے، جو کہ وفاقی حکومت کی جانب سے متعدد ’غیر ضروری‘ اور ’لگژری اشیا‘ پر پابندی کے موافق ہے۔
ایچ ای سی نے مقامی طور پر تیار کردہ روایتی مشروبات جیسے لسی اور ستو کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنے کی سفارش کی ہے، ایک حالیہ خط کے مطابق جو ایچ ای سی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شائستہ سہیل نے تمام یونیورسٹیوں کےوائس چانسلرز اور سرکاری و نجی اداروں کے ریکٹرز کو بھیجا ہے۔
ایچ ای سی کی تجویز یہ بھی اشارہ کرتی ہے کہ اس کے نتیجے میں مستقبل میں روزگار کے امکانات اور اس نوعیت کی کوششوں کے ذریعے مالی فائدہ ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ ایچ ای سی نے مقامی چائے کی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔
چائے پر قومی درآمدی بل کے اخراجات پہلے کے مقابلے میں کافی کم ہو جائیں گے۔ اسی طرح، کمیشن نے فوسل فیول کی درآمد میں کمی اور گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ایندھن کے متبادل کے طور پر آلٹرنیٹیو انرجی کے وسائل کی ترقی کی طرف توجہ دینے پر زور دیا ہے۔
درآمد شدہ خوردنی تیل کو محدود کرنا بھی ایچ ای سی کی طرف سے پیش کی گئی تجاویز میں شامل ہے، جس میں غیر ملکی درآمدات پر انحصار کرنے کے بجائے مقامی کوکنگ آئل کی تیاری اور پیداوار کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔