تعلیم دشمن وزیرِ تعلیم: ٹوئٹر پر طلبا کا ردِ عمل
تعلیم دشمن وزیرِ تعلیم: ٹوئٹر پر طلبا کا ردِ عمل
طلبا اور ان کے والدین کا سندھ حکومت کی جانب سے اسکولوں میں 50 فیصد حاضری کی اجازت دینے کے فیصلے پر سخت رد عمل
سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی کی جانب سے یکم مارچ سے اسکولوں میں پانچ روزہ انفرادی کلاسز شروع کرنے کے وفاقی حکومت کے فیصلے کی مخالفت کے بعد طلبا اور ان کے والدین کی جانب سے خاصا سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔
صوبائی وزیرتعلیم سعید غنی نے پیر کے روز کہا تھا کہ سندھ اسکولوں میں باقاعدہ کلاسوں کی اجازت نہیں دے گا اور کورونا وائرس کا وبائی مرض پھیلنے کی وجہ سے صرف 50 فیصد حاضری کے ساتھ جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کے باقاعدہ پانچ روزہ کلاسز کو دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے نے طلباء میں تشویش پیدا کردی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم 100 فیصد حاضری کی اجازت دیں تو بچے سماجی دوری کو کیسے برقرار رکھیں گے؟
سعید غنی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایک بار وبائی بیماری ختم ہو جانے کے بعد تمام بچوں کو اسکول جانے کی اجازت ہوگی۔
سعید غنی کے فیصلے کے جواب میں ایک ٹوئٹر صارف نے اسکول کی جانب سے مکمل فیس وصول کیے جانے کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ تین دن اسکول چلانا چاہتے ہیں تو چلائیں لیکن اس صورت میں حکومت کو اسکولوں کو آدھی فیس ادا کرنی چاہیے کیونکہ والدین پوری فیس ادا کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتے۔
ٹوئٹر پر جاری اس بحث و مباحثے میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو ٹیگ کرتے ہوئے اور سندھ کے اچھے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے ایک ٹوئٹر صارف نے کہا کہ کورونا وائرس مہلک ہے، بچوں کو نہیں معلوم کہ جب اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے کا اعلان کیا گیا تو وفاقی وزیر تعلیم کیا سوچ رہے تھے۔
انہوں نے لکھا کہ براہ کرم کچھ سنجیدگی دکھائیں، یہ ہمارا مستقبل ہے جس کے بارے میں ہم یہاں بات کر رہے ہیں۔
ایک اور ٹویٹر صارف نے وزیر تعلیم سندھ کو اینٹی ایجوکیشن منسٹر قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ آج پاکستان پیپلز پارٹی نے حیدری مارکیٹ کے اطراف جلسہ منعقد کیا ہے تو کیا وہاں کورونا وائرس نہیں ہے؟
انہوں نے کہا کہ جب تمام شادی ہالز، بازار، ریستوران، بیوٹی پارلر اور پارکس کھلے ہوئے ہیں تو اسکولوں کے علاوہ کیا کہیں بھی کورونا وائرس موجود نہیں ہے۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، تعلیم دشمن وزیرِ تعلیم۔