تعلیم کے وسائل پر قبضہ کرنے والی سیاسی قوتیں : رپورٹ
تعلیم کے وسائل پر قبضہ کرنے والی سیاسی قوتیں : رپورٹ
مقررین کا کہنا تھا کہ اسکول سے باہر بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پریشان کُن ہے
ہفتے کے روز جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں تعلیم کا شعبہ سیاسی قوتوں کے اثر میں ہے اور اس کے ناجائز استعمال کا خطرہ ہے۔
ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے دی پولیٹیکل اکانومی آف ایجوکیشن ان سندھ ان 2020 کی آن لائن لانچنگ تقریب میں مطالبہ کیا گیا کہ حکومت سندھ کو صوبے میں تعلیم کی خراب حالت کو ٹھیک کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔
ایچ ڈبلیو اے کے صدر اکرم خاصخیلی نے کہا کہ مفت اور لازمی تعلیم ریاست کے ہر شہری کا ایک آئینی حق ہے لیکن حکومت ہر بچے کو یہ حق فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 6.4 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق کسانوں اور مزدوروں کے خاندان سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم بدترین حالت میں ہے، مزید یہ کہ سہولیات کی عدم دستیابی اور اساتذہ کی کمی کی وجہ سے ہزاروں اسکول غیر فعال ہیں ، جبکہ دیہی علاقوں میں تعلیم کی کمی کے باعث چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوا ہے۔
مقررین نے مطالبہ کیا کہ صوبائی حکومت تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرے اور اس کے مناسب استعمال کو یقینی بنائے، بچوں کی جانب سے اسکول چھوڑنے کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے تمام اسکولوں کو فعال بنایا جائے، اساتذہ کی کمی کے مسائل کو دور کرنے کے لیے فوری طور پر ضرورت کے مطابق اساتذہ کی بھرتی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں سیاسی مداخلت خطرناک ہے۔
اس رپورٹ کے مصنفین میں شامل ڈاکٹر عبداللہ کھوسو کا کہناتھا کہ ہر ملک میں تعلیمی شعبے میں سیاسی مداخلت کی جاتی ہے۔ تاہم ، سندھ میں بہت زیادہ سیاست کی جاتی ہے جہاں وسائل کا ناجائز اور غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم کے شعبے میں مداخلت کی ہر جہت سیاسی ہے، جس میں وسائل کی تقسیم اور استعمال شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کا تعلیمی نظام معاشی وسائل کی تقسیم کے حوالے سے بری طرح سیاسی مداخلت کا شکار ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین قاضی خضر نے کہا کہ سندھ نے انسانی اور بچوں کے حقوق سے متعلق قوانین متعارف کروائے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد ہمیشہ ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ حکومت تعلیم سے متعلق اعداد و شمار فراہم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ان کی اپنی ریسرچ کے مطابق حقیقت میں سندھ بھر میں5سے16سال کی عمر کے 7.5 ملین بچے اسکول نہیں جارہے تھے۔
تعلیم و آگہی پاکستان کی سی ای او بیلا رضا جمیل نے تجویز پیش کی کہ حکومت تعلیمی شعبے کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے اختیارات اور وسائل مہیا کرے۔ تاہم حکومت کو مانیٹرنگ کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
انڈس ریسورس سینٹر سے تعلق رکھنے والی صادقہ صلاح الدین کا موقف تھا کہ سندھ میں زیادہ تر بچے اسکول ہی نہیں جاتے اور اگر اسکول جاتے بھی ہیں تو اساتذہ کے پاس مناسب تدریس کی اہلیت کی کمی کی وجہ سے وہ کچھ بھی نہیں سیکھ پاتے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ مسلہ بچیوں کا ہے۔ انہیں اسکولوں تک رسائی حاصل نہیں ہے ، اور وہ ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے کو ایجوکیشن کے اسکولوں میں نہیں جاسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر تشویش کا ایک بہت بڑا سبب ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے2021 کو بچوں کی مزدوری کے خاتمے کا بین الاقوامی سال قرار دیا گیا ہے۔
(یہ خبر ایکسپریس ٹریبیون کی 20 جون 2021 کی اشاعت سے اخذ کی گئی ہے)